فیصل وائوڈا اور پاک فوج کے ترجمانوں کی اہم پریس کانفرنسیں
معروف اینکر ارشد شریف کی کینیا کے شہر نیروبی میں پراسرار ہلاکت کے واقعہ پر مین سٹریم میڈیا میں بالعموم اور سوشل میڈیا پر بالخصوص جس قسم کی کی تبصرہ آرائی ہو رہی ہے اس نے افراد کے ذہنی افلاس اور سماج کے بانجھ پن کو عیاں کر دیا ہے۔ لوگ اپنے اپنے انداز سے اس قتل کے ڈانڈے مختلف افراد اور اداروں کے ساتھ ملا رہے ہیں لیکن بے سروپا اور بے بنیاد تبصروں اور خیال آفرینی سے اداروں کی ساکھ پر جو حرف آ رہا ہے اس کی انہیں ذرا پروا نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ ایسا واقعہ ہے جس پر صرف صحافی برادری ہی نہیں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے دکھ کا اظہار کیا ہے لیکن چونکہ یہ واقعہ دور دراز کے ایسے افریقی ملک میں ہوا ہے جہاں پر انسان کی رسائی انتہائی مشکل ہے۔ اس لیے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سماج دشمن عناصر اس کی آڑ میں ریاستی اداروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس مکروہ فعل میں ہمارے سیاستدان بھی پیش پیش ہیں۔ ملک کی بڑی اور معروف سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کردار اور رویہ اس اعتبار سے خاص طور پر محلِ نظر ہے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے جس طرح اپنی اقتدار سے محرومی کو ایشو بنا کر عسکری اداروں کے خلاف زبان طعن دراز کی ہے وہ کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے اقتدار سے محرومی کو امریکی سازش کا نام دیا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر اسد مجید کی طرف سے بھیجا جانے والا مراسلہ جسے سفارتی زبان میں ’’سائفر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اس میں اپنی مرضی کے الفاظ شامل کرکے عوام الناس کے سامنے ’’شہادت‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا اور اس کے پیچھے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ عسکری ادارے کی قیادت کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا لیکن حد یہ ہے کہ یہ بیانیہ ہر انداز اور ہر پہلو سے پِٹ جانے کے بعد بھی انہوں نے عسکری ادارے کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھا۔
اب حال ہی میں معروف اینکر ارشد شریف کی ملک سے باہر ایک افریقی ملک کینیا میں ہلاکت کے واقعہ کو بنیاد بنا کر جس طرح عسکری ادارے کو رگیدا گیا اس نے پورے ملک میں ایک اضطراب اور ہیجان برپا کر دیا ہے، اس میں ان کے ساتھ ایک میڈیا (اے آر وائی) کے مالکان بھی شامل رہے۔ صحافی ارشد شریف کی موت کے پیچھے عسکری ادارے کا ہاتھ ظاہر کیا جاتا رہا اور پھر سوشل میڈیا نے بھی اسی بیانیے کو اس طرح عام کیا کہ ملک میں عسکری ادارے کی ساکھ مجروح ہو اور ہمارے دشمن بھارت کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں آگے بڑھانے کا موقع ملے۔ یہ ایک ایسا گھنائونا فعل ہے کہ جس سے ملک کی سا لمیت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی افواج دنیا کی بہترین افواج تصور کی جاتی ہیں جن کی پیشہ ورانہ مہارت کی ایک دنیا معترف ہے۔ یہ افواجِ پاکستان کی بے مثال اور بے نظیر قربانیوں ہی کا صِلہ ہے کہ آج پاکستان دہشت گردی کی عفریت سے محفوظ ہے۔ ہماری مسلح افواج نہ صرف ملک کی سرحدوں کی محافظ کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں بلکہ اندرونِ ملک بھی دہشت گردوں، سماج دشمن عناصر اور امن و امان میں رکاوٹ کا باعث بننے والے عناصر کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ علاوہ ازیں ملک میں آنے والی آفات سماوی و ارضی مثلاً زلزلے، سیلاب وغیرہ میں بھی لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے بھی افواج پاکستان سرگرم عمل دکھائی دیتی ہیں۔ یہ واحد منظم متحد اور نظم و ضبط کا پابند ادارہ ہے جس کی خدمات ہر دور میں ہی قوم کو دستیاب رہی ہیں اور قوم اس عظیم ادارے کی خدمات، کارکردگی اور کردار پر ہمیشہ فخر کرتی رہی ہے۔ اس کی بڑی اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ ادارہ ملک کے تحفظ کا ضامن اور پوری قوم کی امیدوں کا مرکز و محور ہے لیکن کتنی افسوسناک بات ہے کہ اس ادارے کی قومی و ملّی خدمات اور قربانیوں کے باوجود اپنے مذموم مقاصد کے لیے اسے مشقِ ستم کا ہدف بنایا جا رہا ہے اور ظاہر ہے یہ ایک شعوری اور دانستہ کوشش ہے جس کا مقصد اس ادارے کو بدنام کرکے اس کو کمزور کرنا ہے کیونکہ کوئی کمزور ادارہ ملک کی سلامتی کا ضامن نہیں ہو سکتا، گویا ملک و قوم کے خلاف ایک گھنائونی سازش کے تحت ایسے ایجنڈے کی تکمیل کی کاوش کی جا رہی ہے جو صرف ملک دشمن قوتوں ہی کا مقصود اور مطمح نظر ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ گھنائونا کھیل پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کھیل رہے ہیں۔ ان کی جماعت کے ایک مرکزی رہنما سابق سینیٹر فیصل واوڈا نے اپنی گزشتہ شب کی پریس کانفرنس میں بادی النظر میں عمران خان کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے اور قوم کو متنبہ کیا ہے کہ جس لانگ مارچ کی کال عمران خان نے دے رکھی ہے اس میں خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کے واقعہ پر بھی ان کا کہنا تھا کہ اسے ایک سازش کے تحت ملک سے باہر بھیجا گیا۔ اس میں ایسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ دوسری طرف عساکرِ پاکستان کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نویداحمد انجم کے ہمراہ گزشتہ روز ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں ان تمام الزامات کو بے بنیاد اور باطل قرار دیا جو سابق وزیر اعظم عمران خان مسلح افواج کی قیادت پر لگاتے رہے ہیں۔ ملک کی افواج کے اہم ترین اداروں کے سربراہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کے دورِ اقتدار سے لے کر ان کی اقتدار سے محرومی اور اس کے بعد سے ابتک کے بیانیوں کی حقیقت کو بے نقاب کیا اور واضح کیا کہ جس شخصیت کو عمران خان غدار قرار دیتے رہے اسی کے ساتھ رات کی تاریکی میں خفیہ مذاکرات کرتے اور انہیں انکے منصب پر غیرمعینہ مدت تک برقرار رکھنے کی پیشکش کرتے رہے ہیں۔ رجیم چینج کے مخصوص ایجنڈے کو پروان چڑھایا گیا ۔افواج پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔نیوٹرل اور جانور جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔غیر آئینی کام سے انکار کرنے پر میر جعفر اور میر صادق کے القاب دیے گئے۔ صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کے حوالے سے بھی ان سینئر فوجی افسران کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد لوگوں نے سوچوں کا رُخ فوج کی طرف موڑنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کے حوالے سے جڑے واقعات کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے تاکہ قوم سچ جان سکے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس واقعے سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔ تمام کرداروں کو سامنے لا کر حقائق قوم کے سامنے رکھنا چاہئیں۔ حتمی رپورٹ آنے تک کسی پر الزام تراشی کسی صورت بھی مناسب نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے سیاسی معاملات سے لاتعلقی کے عزم کا بھی اعادہ کیا اور کہا کہ اس عزم کے ساتھ آئندہ 20 سال تک کی عسکری قیادتوں نے خود کو وابستہ کیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں عساکرِ پاکستان کے دو اہم اداروں کے سربراہوں کی طرف سے اس طرح عوامی سطح پر آ کر اپنے ادارے کے پیشہ ورانہ آئینی کردار کا دفاع کرنا اور اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے والے عناصر کو بے نقاب کرناملک کے معروضی حالات میں ضروری ہو گیا تھا۔ ملک کی سلامتی اور محفوظ مستقبل کے لیے بہرحال ہم سب کو مل کر سوچنا ہو گا اور ان عناصر کی سرکوبی کے لیے اجتماعی کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی جو اس ملک کی سلامتی سے کھیلنے کا مکروہ عمل کر رہے ہیں۔ مسلح افواج نے اس پریس کانفرنس کے بعد اصلاحِ احوال کے لیے گیند موجودہ حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سائفر پر مبنی بیانیہ اور ارشد شریف کے قتل سے جڑے تمام معاملات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے اور ان کرداروں کو بے نقاب کر کے انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے جو ان سازشوں میں حقیقی طور پر ملّوث ہیں۔