میری رات کی مایوسی اور دن کا اطمینان
ہماری کمیونٹی کے مدبر اور باوقار اینکر ارشد شریف کی شہادت پر انکے ممدوح عمران خان‘ انکی پارٹی پی ٹی آئی اور اس سے وابستہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں نے فوری طور پر جو بیانیہ تیار کرکے اسکے تحت زہریلا پراپیگنڈا سچ لگنے والے کثرت سے بولے جانیوالے جھوٹ کی طرح پھیلایا۔ وہی اب عمران خان کے اپنے گلے پڑتا نظر آرہا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل وائوڈا کی گزشتہ شب ہوئی ہنگامی پریس کانفرنس اور اسکے چند گھنٹوں بعد ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی مشترکہ طور پر اہتمام کی گئی پریس بریفنگ میں پیش کئے گئے حقائق اور اٹھائے گئے سوالات کی بنیاد پر بادی النظر میں کھُرا خود عمران خان کے گھر کی جانب جاتا نظر آرہا ہے۔ میں اس بارے میں ازخود کوئی نتیجہ نکالنے کی ہرگز کوشش نہیں کروں گا۔ پی ٹی آئی میڈیا اور سوشل میڈیا سیل نے تو اس سانحۂ قتل کا ملبہ ملک کی عسکری قیادتوں پر ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور اسی دھماچوکڑی میںخود عمران خان بھی یہ اعتراف کرکے اس ٹریک پر آئے جو اس سانحۂ قتل کے پس پردہ محرکات اور اصل حقائق و شواہد کی طرف ہاتھ پکڑ کر لے جارہا ہے کہ میں نے ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اسے قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اب تو معاملہ بس اتنا ہی رہ گیا ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ جوڈیشل کمیشن کے سربراہ کا تقرر کرکے فوری طور پر اس سانحۂ قتل کی تفتیش کا آغاز کر دیا جائے۔ فیصل وائوڈا کے اس بیان کی بنیاد پر انہیں شامل تفتیش کیا جائے کہ ارشد شریف پر گولیاں کار کے اندر سے چلائی گئی ہیں۔ عمران خان کو بھی انکے متذکرہ بیان کی بنیاد پر شامل تفتیش کیا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ ارشد شریف کے قتل کی سازش کا انہیں کس نے بتایا تھا۔ آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے مشترکہ طور پر اس امر کا تقاضا کیا ہے کہ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے سی ای او سلمان اقبال کو ملک واپس لا کر انہیں ارشد شریف کے قتل میں شامل تفتیش کیا جائے۔ انکے اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن شفاف انداز میں اس سانحۂ قتل کی انکوائری کریگا تو قتل کی یہ واردات ’’اندھی‘‘ ہرگز ثابت نہیں ہوگی اس لئے تمام متعلقین کو اب خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ ارشد شریف کے قتل کی تفتیش میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہے گا۔ میں بھی اپنے اسی اطمینان کی بنیاد پر جوڈیشل کمیشن کی انکوائری پر ہی تکیہ کر رہا ہوں اور اس میں کسی قیاس کا عنصر شامل نہیں کرنا چاہتا۔
مجھے سچی بات ہے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ہنگامی طور پر منعقد کی گئی مشترکہ پریس بریفنگ پر یک گونہ اطمینان ہوا ہے ورنہ میں رات کو فیصل وائوڈا کی ہنگامی پریس کانفرنس میں انکے خیالاتِ ’’کثیفہ‘‘ سننے کے بعد حیران و پریشان اور عملاً مایوس ہو گیا تھا اور مجھے ماضی جیسا ماورائے آئین اقدام اگلے چند گھنٹوں میں اٹھایا جاتا نظر آنے لگا تھا۔ فیصل وائوڈا کی بیان کردہ کہانی کے مطابق آج جمعۃ المبارک کو لاہور سے شروع ہونیوالے عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران اہم، غیراہم انسانی لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں اور خون کی ندیاں بہتی نظر آئیں تو شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست کے محافظ ہونے کے ناطے افواج پاکستان اس سارے معاملہ سے خود کو الگ تھلگ کیسے رکھ سکتی ہیں۔ لانگ مارچ کے دوران فیصل وائوڈا کے بقول انسانی لاشیں کثرت کے ساتھ گریں گی تو یہ صورتحال امن و امان کنٹرول کرنے کے معاملہ میں حکومت کی مکمل ناکامی سے ہی تعبیر ہوگی اس لئے اس قیاس اور افراتفری میں ملک اور اسکے شہریوں کے تحفظ کا آئینی فریضہ ادا کرتے ہوئے افواج پاکستان کیلئے خود اقتدار سنبھالنے کا کیوں جواز پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہی دھڑکا سسٹم کی بقاء کے معاملہ میں رات بھر میری مایوسی بڑھاتا رہا جبکہ اس عمل میں بھی عمران خان کا اطمینان اور انکی تائید و اس بنیاد پر شامل ہوسکتی ہے کہ جن کے اقتدار کا دھڑن تختہ کرنے کا وہ تواتر کے ساتھ تقاضا کررہے ہیں‘ وہ پورا ہو جائیگا چاہے اسکے نتیجہ میں خود انہیں اقتدار ملے یا نہ ملے۔ وہ چرخہ جلا کر جتن سے پکائی کھیر کے ہاتھ سے جانے پر بھی اپنے ذہنی سکون کی خاطر مطمئن ہو سکتے ہیں۔
مگر بھائی صاحب! اب اس خواہش کے پر جلنے کا وقت آگیا ہے اس لئے میری مایوسیاں بھی جمہوری نظام کے اچھے مستقبل کی جھلک دیکھ کر اطمینان کے قالب میں ڈھلنے لگی ہیں۔ جناب یہی جھلک تو ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے جمعرات کے روز ہنگامی طور پر اپنی مشترکہ پریس بریفنگ کا انعقاد کرکے پوری قوم کو دکھائی ہے۔ انکی اس بات پر میں اس بنیاد پر یقین کررہا ہوں کہ پہلے انہوں نے ماورائے آئین اقدامات اور عمران خان کو قدآور سیاست دان بنانے کی شکل میں کی گئی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہم انہی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے عسکری ادارے کے اس عہد کا اعادہ کیا جو اس ادارے کو اپنی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریوں تک محدود رکھنے اور سول حکومتوں کے معاملات میں مکمل غیرجانبدار رہنے کیلئے عسکری قیادت کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اسی گفتگو کے دوران انہوں نے عمران خان کی عسکری قیادتوں سے بیک ڈور ہونیوالی ملاقاتوں کو بھی حقیقت قرار دیا اور ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر ایک سائفر کی بنیاد پر تیار کئے گئے بیرونی سازش کے بیانیہ سے اب تک کی ساری سازشی کہانی کھول کر بیان کر دی اور ارشد شریف کے سانحۂ قتل کی اندرونی سازش کی کڑیاں بھی عمران خان کی اودھم مچانے والی سازشی سیاست کے ساتھ ملائیں۔ انہوں نے عمران خان کیلئے بجا طور پر یہ سوالات اٹھائے کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کیلئے انہوں نے رات کے وقت آرمی چیف کو انکے منصب پر تاحیات برقرار رکھنے کی پیشکش کی تو دن کے وقت وہ عمران خان کی نگاہ میں غدار‘ میرجعفر‘ میر صادق کیسے بن گئے۔ اس سوال کا جواب بلاشبہ وقت کا تقاضا ہے کہ اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد ہی انہوں نے فوج کے غیرجانبدارانہ کردار پرعسکری قیادت کو ایسے ناموں سے پکارنا شروع کیا جو کسی کی تضحیک کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ بلاشبہ عسکری قیادت نے انکی یہ خواہش پوری کرنے سے معذرت کرلی تھی کہ انہیں سہارا دیکر واپس اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا جائے۔ اسی تناظر میں عسکری قیادت نے آئین میں متعین اپنی ذمہ داریوں تک خود کو محدود رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور عمران خان کی غیرآئینی اور غیرقانونی خواہشات پوری کرنے سے معذرت کرلی جس کے بعد انہوں نے ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کیخلاف دھماچوکڑی مچانا شروع کر دی۔ اگر اس وقت ہی ان پر آئین کی دفعہ 19 کی عملداری لاگو کر دی جاتی تو انہیں اپنے لئے پہلے جیسا کھلی چھوٹ والا ماحول نظر نہ آتا اور وہ کینڈے میں آجاتے مگر وہ کھلی چھوٹ کے تاثر میں ہی آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کی بھد اڑاتے اور ریاستی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے۔ اب عسکری ادارے کے ترجمانوں نے انہیں انکی لامحدود حرکات پر آئین و قانون کی متعلقہ دفعات کے روبہ عمل ہونے کا عندیہ دیا ہے تو سمجھیں اب عوامی مقبولیت والے غبارے سے ہوا نکلنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی اور فیصل وائوڈا کی پریس کانفرنس کے فوری بعد شیخ رشید کی علالت کے بہانے لانگ مارچ میں شمولیت سے معذرت کی طرح آپ کو وہ تمام پتے ہوا دیتے نظر آئیں گے جن پر تکیہ کرکے آپ نے سیاست میں اودھم مچانے کی ٹھانی تھی۔ عسکری ترجمانوںکے بقول آئندہ 20 برس تک ممکنہ طور پر آنیوالی عسکری قیادتوں نے بھی عساکر پاکستان کو سول سیاسی معاملات سے باہر رکھنے کا عہد کیا ہے تو یقین جانیئے کہ 2008ء سے ٹریک پر چڑھنے والی جمہوریت کی گاڑی کو کسی اندرونی یا بیرونی سازش کا کوئی بیانیہ گزند تک نہیں پہنچا سکے گا۔ یہی عسکری ترجمانوں کی پریس بریفنگ کا خلاصہ اور میرے اطمینان کی وجہ ہے اور بے شک قوم کے دل اپنی جری و بہادر افواج کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
٭…٭…٭