• news

سورۃ بقرہ کے مضامین (۱۱)


بنی اسرائیل کی مسلسل حماقتیں :اللہ رب العزت کے فضل وکرم اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی رہنمائی اور قیادت کی بدولت بنی اسرائیل فرعون کے پنجہء استبداد سے محفوظ ہوگئے ،لیکن امن وامان کا ماحول میسر آتے ہی انکی طبیعتوں کی افتادبھی بیدار ہوگئی۔حضرت موسیٰ ؑ، اللہ کے کلام سے بہرہ ور ہونے کیلئے چالیس دن کے کوہ طور پر گئے تو انھوںنے سامری کے ورغلانے پر بچھڑے کی پوجا شروع کردی اس واقعے کی تفصیل سورہ طہٰ میں بیان کی گئی ہے سورہ بقرہ میں بتایا گیا کہ بنی اسرائیل کو سزا سنائی گئی کہ اب اس جرم کی سزا یہ ہے کہ تم شرک سے آلودہ ہونیوالے افراد کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرو، روایت ہے کہ ایک دن میں دوہزار افراد قتل ہوئے توحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عفوو معافی کی درخواست پیش کی ، انکی یہ درخواست قبول ہوئی اوربنی اسرائیل کی ایک بار پھر خلاصی ہوئی۔ 
باری تعالیٰ کو بے حجاب دیکھنے کی ضد:امام محمدبن اسحق بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کی طرف لوٹے اوربچھڑے کی عبادت کرنے پر بنو اسرائیل کو ملامت کی اوربچھڑے کو جلا کر اسکے ذرات کو سمندر میں ڈال دیا، پھر حضرت موسیٰ نے اپنی امت میں سے انتہائی نیک افراد جن کی تعداد ستر تھی، سے فرمایا :تم میرے ساتھ کوہ طور پر چلواوراپنی اس گئوسالہ پرستی پر اللہ تعالیٰ سے معذرت کرو، جب حضرت موسیٰ ان کو لیکر پہاڑ طور پر گئے تو انہوںنے حضرت موسیٰ سے کہا: آپ اپنے رب سے یہ سوال کریں کہ ہم بھی اپنے رب کاکلام سن لیں، حضرت موسیٰ نے فرمایا: اچھا‘حضرت موسیٰ جب پہاڑ کے قریب پہنچے توایک بادل آیا اوراس نے پورے پہاڑ کو ڈھانپ لیا،حضرت موسیٰ اس بادل میں داخل ہو گئے اور قوم سے کہا: تم قریب آجائو، جب حضرت موسیٰ اپنے رب سے ہم کلام ہوتے تو انکی پیشانی پر بہت چمکدار نور ظاہر ہوتا جس کو دیکھنے کی کوئی انسان تاب نہیں لاسکتا تھا، تو وہ اپنی پیشانی پر نقاب ڈال لیتے تھے ، جب قوم اس بادل کے اندر داخل ہوئی تو سجدہ میں گرگئی ، حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے کلام کررہے تھے اور وہ سن رہے تھے، جب موسیٰ ؑفارغ ہوئے اوربادل چھٹ گیا ، تو یہ لوگ حضرت موسیٰ سے کہنے لگے :ہم ہر گز اللہ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کو بالکل ظاہر عیاں اور بیاں دیکھ نہ لیں  اسی وقت ان پر بجلی کی ایک کڑک آپڑی اور وہ سب مرگئے، حضرت موسیٰ ؑنے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور عرض کیا: اے اللہ ! اگر تو چاہتا تو ان کو پہلے ہی ہلاک کردیتا، جب میں اپنی قوم کے پاس جائوں گا تو میری کیسے تصدیق کرینگے کہ وہ کڑک سے ہلاک ہوگئے اور آئندہ مجھ پر ہی کب اعتماد کرینگے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام مسلسل دعا کرتے رہے، بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان میں روحیں لوٹا دیں پھر بنواسرائیل نے جو بچھڑے کی پرستش کی تھی اس پر توبہ کی مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب تک کہ یہ ایک دوسرے کو قتل نہیں کرینگے ، اللہ تعالیٰ انکی توبہ قبول نہیں فرمائے گا۔(جامع البیان ، امام محمد بن جریر طبری)

ای پیپر-دی نیشن