جمعۃ المبارک، یکم ربیع الثانی، 1444ھ، 28 اکتوبر 2022ء
بھارت میں شوہر بیوی کو خودکشی سے روکنے کی بجائے ویڈیو بناتا رہا
خدا غارت کرے اس موبائل کو جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ جس بے حسی اور سنگ دلی کا شکار ہو رہا ہے وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ کسی حادثے میں یا اتفاقیہ طور کسی پر کوئی آفت ٹوٹی ہو تو بجائے اس لوگ آگے بڑھ کر متاثرہ شخص یا لوگوں کی مدد کریں۔ یہ بدبخت موبائل فون لے کر ویڈیو بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کوئی بروقت مدد کر کے ان کی جان نہیں بچاتا۔ جب تک یہ موبائل کی بیماری نہیں تھی لوگ بھاگ دوڑ کر زخمیوں کو ،جلنے والے کو، ڈوبنے والے کو بچانے کی تگ و دو کرتے تھے۔ اب ویڈیو بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ تف ہے ایسی بے حسی پر۔ یورپ میں تو مرنے والے کی مدد نہ کرنا بھی جرم ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں اگر ایسا کوئی سخت قانون ہوتا تو کانپور بھارت میں بیوی کو خودکشی کرتا دیکھ کر اسے روکنے کی بجائے اس کا شوہر اس کی ویڈیو نہ بناتا۔ کتنے دکھ کی بات ہے۔ کوئی مر رہا ہے اور کوئی غیر نہیں اس کی زندگی کا ساتھی ہی اسے بچانے نہیں آ رہا۔ ویڈیو بناتا ہے بے شک…
جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی
والی بات درست ہے۔ مگر یہ تو میاں بیوی تھے، ایک دوسرے کے غمگسار ہمدرد۔ شاید اس شوہر نامدار کو بیوی سے زیادہ دلچسپی ویڈیو بنانے میں تھی جبھی تو اس نے ویڈیو بنا کر سسرال والوں کو بھیج دی تاکہ وہ بھی دیکھ سکیں کہ ان کی بیٹی کیسے مری۔ اب دیکھتے ہیں قانون اس سلسلے میں اسے کیا سبق سکھاتا ہے۔ یہ سنگدلی کی حد ہے اور اس کا تدارک وقت کی اہم ضرورت۔
٭٭٭٭٭
انڈونیشیا میں 57 سالہ لاپتہ خاتون اژدھے کے پیٹ سے برآمد
ہمارے ہاں جب کوئی گم ہو جائے تو بندہ پہلے اسے خود تلاش کرتا ہے۔ پھر مسجد سے اعلان کرواتا ہے۔ بالآخر پولیس تھانے جا کر بار بار ذلیل ہو کر منتیں ترلے یا چائے پانی دے کر اس کی رپورٹ درج کرواتا ہے کیونکہ تھانے والے ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ خود ہی ڈھونڈ لیں۔ اگر بچہ ہے تو کہتے ہیں اڑوس پڑوس میں ہی ہو گا ۔جوان ہے تو کہتے ہیں ناراض ہو کر گیا ہو گا۔ لڑکی ہے تو اس پر بھاگنے کی تہمت لگا دیتے ہیں۔ اسی لیے لوگ زیادہ تر خودہی تلاش کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ پولیس کی اس کاہلی کی وجہ سے بہت لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی گمشدہ انسان کسی جانور کے پیٹ سے برآمد ہو۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے درندے یا آدم خور جانور ہمارے ہاں پائے نہیں جاتے البتہ انسانوں کی بات نہیں کرتے انسانی بھیس میں بے شمار ایسے درندے اور آدم خور موجود ہیں جن کے دامن پر درجنوں انسانوں کا لہو لگا ہوتا ہے۔ مگر وہ بھی انسانوں کو زندہ نگل نہیں سکتے۔ ہاں مرنے کے بعد زمین میں دبا دیتے ہیں ، آگ میں جلا دیتے ہیں، دریا میں بہا دیتے ہیں۔ اب اس انڈونیشیا میں جو ایک باون سالہ خاتون چند روز قبل لاپتہ ہوئی تھی لوگ اسے ڈھونڈ رہے تھے وہ ایک اژدھے کے پیٹ سے بہ حالت مردہ برآمد ہوئی۔ شاید اژدھے کو اسے نگلنے میں دشواری ہوئی تھی یا لوگوں نے اس بڑے اژدھے کو دیکھ کر شک کی بنیاد پر اس کا پیٹ چاک کرکے دیکھا تو خاتون کی نعش برآمد ہوئی۔ اس طرح اس کی گمشدگی کا قصہ تمام ہوا ورنہ نجانے کب تک یہ تلاش جاری رہتی۔
٭٭٭٭٭
بیٹوں کے والدین کے دماغ جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ تحقیق
کوئی مانے نہ مانے مگر ہم اس تحقیق پر پورا اعتماد کرتے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ دور میں تو بیٹوں کی حرکات اور کرتوت خاصے خطرناک ہو گئے ہیں۔ ویسے سچ تو یہ ہے نوجوان یعنی بیٹے ہر دور میں والدین کے لیے درد سر رہتے ہیں۔ ان کی خواہشات، فرمائشیں، تعلیم، عشق و محبت ، داخلے ، اخراجات، شادی بیاہ، نوکری تک کا جھنجھٹ والدین کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ لڑائی جھگڑے، آوارگی، بدمعاشی ، غنڈہ گردی ایک علیحدہ مصیبت بن کر سر پر سوار رہتی ہے۔ ایسی حالت میں اب سائنسدان کہتے ہیں کہ بیٹا چاہے ایک ہی کیوں نہ ہو والدین کے دماغ کو بوڑھا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بچیوں کے حوالے سے سوچا جاتا تھا کہ ان کی وجہ سے ان کی عمر تعلیم شادی بیاہ، سسرال ، اولاد کی وجہ سے والدین پریشان رہتے ہیں وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ بات تو یہ بھی درست ہی ہے مگر یہ بڑھاپا دماغی نہیں جسمانی ہوتا ہے۔ گویا یہ بیٹوں کے مقابلے میں کم نقصان دہ ہوتا ہے۔ اب غالب کے شعر کو
کہتے ہیں جس کو ’’بیٹا‘‘ خلل ہے دماغ کا
کہہ کر بھی پڑھایا لکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اب ماہرین نے والدین کے دماغی ضعف کی وجہ بیٹوں کو قرار دیا ہے۔ اس تحقیق کے بعد بیٹیوں کو تو خوشی منانی چاہیے کہ وہ خوامخواہ بدنام تھیں کہ والدین کے دل و دماغ کے تمام غم ان سے منسوب کئے جاتے تھے۔ چلیں اب اس الزام سے تو ان کی جان چھوٹی۔
٭٭٭٭٭
سیاست کا فائنل رائونڈ شروع ہو گیا‘ آر یا پار۔ شیخ رشید
اب خدا جانے اس فائنل رائونڈ سے کیا مراد ہے۔ کیونکہ گزشتہ روز جس طرح ایک زوردار پریس کانفرنس میں مقتدر حلقوںنے بہت سے غباروں کی ہوا نکالی ہے۔ اس کے بعد یہ غبارے جو اپنی اپنی ہوا پر اتراتے تھے اب پھٹیچر بن کر سمٹے اور گرے پڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس زور دار پریس کانفرنس کے بعد دروغ برگردن راوی شیخ رشید کا ہی یہ میسج چل رہا ہے کہ ’’بیمار ہوں ا س لیے لانگ مارچ میں شریک نہیں ہو رہا۔‘‘ اب خدا جانے انہیں اچانک ایسی کون سی بیماری لاحق ہو گئی ہے کہ وہ لانگ مارچ میں حصہ لینے سے گریزاں ہیں۔ کہیں ان پر کوئی بھاری پائوں تو نہیں پڑ گیا۔ کل تک تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر صلح ہو یا جنگ عمران کے سنگ کا اشتہار بنے پھرتے تھے یہ اب اچانک یہ انہیں کون سا سانپ سونگھ گیا۔ ورنہ عین معرکہ میں میدان چھوڑ کر کون جاتا ہے جب منزل قریب ہو۔ اس وقت تو اِدھر اُدھر سے لوگ مال غنیمت کے لالچ میں قافلے میں آن ملتے ہیں۔ اب بقول شیخ رشید فائنل رائونڈ شروع ہے اور وہ نومبر میں آرپار کی باتیں بھی کر رہے ہیں تو پھر یہ سوشل میڈیا پر جو بیماری والا بیان ہے وہ کیا ہے۔ شاید یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی جو جانتا ہو گا کہ شیخ جی کا سیاسی قبلہ کس طرف ہے وہ تو وہاں کا نام بھی بنا وضو نہیں لیتے۔
٭٭٭٭٭