عمران خان کا اندازِ سیاست
موجودہ سیاسی کشیدگی نے جو غیریقینی کی فضا پیدا کر رکھی ہے، اس سے ملک کی ساکھ ہی متاثر نہیں ہو رہی‘ بلکہ اس کا خمیازہ عام آدمی کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مجھے عمران خان کے انداز سیاست سے بہت مایوسی ہوئی۔ اسکی نہ تو ستائش کی جا سکتی ہے نہ موجودہ حالات میں ملک ایسی سیاست کا متحمل ہو سکتا ہے۔ عمران خان قوم کو کرپشن فری سوسائٹی ‘ امیر و غریب کیلئے یکساں قانون اور اس ملک کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا عزم لے کر ہی سیاست کے میدان میں اترے جس کا وہ اپنی ہر تقریر میں اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے مخالفین کیخلاف جارحانہ انداز اپناتے ہوئے انہیں چور‘ ڈاکو جیسے القابات سے نوازا اور انہیں کسی صورت این آر او نہ دینے کا عزم باندھا۔ اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں وہ اپنے مخالفین کی ایک کرپشن بھی ثابت نہ کرسکے۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد انہوں نے جس طرح اپنی جارحانہ سیاست کا آغاز کیا‘ اس سے نہ قومی ادارے بچ سکے بالخصوص پاک فوج پر بھی تنقید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس سے انکی ذات ہی نہیں‘ بلکہ پی ٹی آئی کی اپنی ساکھ کو بھی شدیددھچکا لگا۔ اب وہ اپنی یہ جنگ اسمبلیوں کے بجائے سڑکوں پر لڑنا چاہتے ہیں جس کی قانون ہرگز اجازت نہیں دیتا۔اگر انہیں موجودہ سسٹم سے اختلاف تھا تو وہ کم از کم ان صوبوں میں عوام کو کرپشن فری سوسائٹی اور یکساں قانون کی فراہم کرکے سسٹم کی تبدیلی کا عملی ثبوت دیتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پوری قوم بلکہ ادارے بھی سسٹم کی تبدیلی میں ان کا بھرپور ساتھ دیتے۔
اپنے جارحانہ اندازِ سیاست سے وہ اب تک کچھ حاصل نہیں کر پائے ۔ اداروں سے ٹکرائو کے نتیجہ میں وہ اپنی پارٹی کی ساکھ بھی خراب کر بیٹھے اور ان پر ’’میں نہ مانوں‘‘ کا لیبل بھی لگتا نظر آرہا ہے۔ اگر انکی یہی روش برقرار رہی تو کوئی بعید نہیں کہ انہیں اس کا سنگین خمیازہ بھگتنا پڑے۔ بے شک عمران خان کا بیانیہ عوام میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے جس کا جادو سوشل میڈیا پر تو خاص طور پر سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اسی زعم میں عمران خان اپنی جارحانہ سیاست کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ اگر وہ خود کو قوم کا حقیقی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو انہیں انہی قومی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا جنہیں وہ آج رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ اگر انہیں سسٹم میں مبینہ کوئی کرپشن یا بے ضابطگی نظر آرہی ہے تو وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر آئینی طریقے سے اس میں اصلاحات کی راہ ہموار کریں۔ انکے مقابلہ میں اس وقت اتحادی حکومت پی ٹی آئی کی اودھم مچانے والی سیاست پر جو رویہ اپنائے ہوئے ہے‘ موجودہ حالات اسی تحمل و برداشت کے متقاضی ہیں۔
احتجاج کرنا ہر ایک کا آئینی اور قانونی حق ہے‘ اگر احتجاج پرامن کیا جائے تو حکومت کو بھی مداخلت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اگر احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کی سیاست کی جائیگی تو امن و امان برقرار رکھنا بہرصورت حکومت کی ہی ذمہ داری ہے جس کیلئے اسے سرکاری مشنری کو متحرک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ دے چکے ہیں۔ انہیں اپنے 126 دن پر محیط طویل دھرنے سے اندازہ لگا لینا چاہیے جس میں مولانا طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے اتحاد کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پائے۔قائداعظم نے بھی انگریز اور ہندوئوں کے گٹھ جوڑ کی سازشوں کو اپنی حکمت عملی اور سیاسی بصیرت سے ہی شکست دی تھی۔ انہوں نے نہ سسٹم کیخلاف احتجاج کیااور نہ عوام کو سڑکوں پر آنے کیلئے اکسایا۔ اس لئے بہتر ہے کہ عمران خان بھی اپنے تحفظات اور سسٹم میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کیلئے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنا مؤثر کردار ادا کریںجس کیلئے گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ بھی ریمارکس دے چکے ہیں کہ اگر عمران خان پارلیمنٹ سے باہر نہ آتے تو نیب ترامیم میں بحث اور خامیوں کی نشاندہی ہوجاتی۔ انکے یہ ریمارکس بھی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ عوام نے انہیں پانچ سال کیلئے منتخب کیا ہے‘ انہیں پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اتحادی حکومت کو نیب کے پر کاٹنے کا اسی لئے نادر موقع ملا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ عمران خان اپنی جارحانہ سیاست سے اب تک تو کچھ حاصل نہیں کر پائے اور ایسی سیاست سے آئندہ بھی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے انہیں اپنے موجودہ اندازِ سیاست سے نہ صرف رجوع کرلینا چاہیے بلکہ خود کو قومی سیاست کے دھارے میں ڈھال کر اپنے ریاست مدینہ والے عزم کو عملی قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس پر گامزن ہو کر ہی وہ قومی اور بین الاقوامی سیاست کے میعار پر پورا اتر سکتے ہیں اور اپنا مؤثر مقام بنا سکتے ہیں۔