بے باک صحافت زیرِ عتاب کیوں؟
امپیریل ازم کو ختم کرنے میں پریس کا کردار ہمیشہ بہت اہم رہا ہے۔ قلم کی طاقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔؟ قلم کی طاقت اتنی ہے کہ جب وہ اٹھتا ہے تو برائیوں کا سر قلم ہو جاتا ہے کیونکہ جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی'' جہاد ''ہے۔صحافی قلم سے قوموں کی تقدیر رقم کرتے ہیں۔ صحافیوں کے قلم سے شہ پارے نکلنے چاہئیں تاکہ اس نور کی رہنمائی سے عوام الناس سچائی کو جان سکیں۔ نہ کہ قلم ایسا ہو کہ وہ ''ڈاکو کا خنجر'' بن سکے۔ حالانکہ بیباک صحافی کی جدوجہد تو ''جمہوری اقدار'' ہے۔ صحافت ایسے انقلاب کی متمنی ہونی چاہیے جس میں لٹیروں کا احتساب ہو۔
صحافی ہو گیا مرحوم، صحافت مرگئی کب کی
قلم اب جرأتِ اظہارِ رائے کو ترستا ہے
قارئین'' تہلکہ اور صحافت'' کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تہلکہ نے جرأت مند اور بے باک صحافت کے نئے باب لکھے۔دیکھا یہ گیا ہے کہ دنیا کے ممالک میں جب جب ''پنڈورا باکس'' کھلا تب تب صحافت پر قدغن لگائی گئی۔ جابرانہ طرزِ حکومت نے صحافت پر لگام کسی۔ حتیٰ کہ ٹاک شوز میں بحث کا موضوع اور ایجنڈا طے کیا گیا۔دیکھا یہ گیا کہ بڑے بڑے میڈیا ہاوسز کرپشن کے گاڈفادر کو پیارے ہو جاتے رہے۔
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
اور راج کرے گی خلق خدا
آجکل یہ بات زبان زد عام ہے کہ حکومتوں اور طاقتور سیاست دانوں کیخلاف جانے کا مطلب جان سے جانا ہے۔ تو کیا اب ہم مظلوم عوام کے حق میں آواز نہ اٹھائیں۔ جب ہم ان کی آواز نہیں بنیں گے اور بے یارو مددگار چھوڑ دیں گے تو یقیناً غضب الٰہی کو دعوت دیں گے کیونکہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں۔ چپس لگانے والا،چھابڑی والا،مکینک، الیکڑیشن، پلمبر،درزی، زلف تراش، تندور والا، راج مزدور یہ سب عظیم لوگ ہیں جو لقمہ حلال تلاش کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ یہ خلق خدا ہے۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں، خودکشیاں کر رہے ہیں، مہنگائی و بے روزگاری کے سبب چلتی پھرتی لاش بن چکے ہیں۔اسی ضمن میں شعبہ صحافت کی تمام تر ہمدردیاں غریب عوام کے لیے ہونی چاہئے نہ کہ جی حضوری کروانے والے مردہ ضمیر سیاست دانوں کے لیے!
پھول دامن پہ سجائے ہوئے پھرتے ہیں وہ لوگ
جن کو نسبت ہی نہ تھی کوئی چمن سے یارو
سینہء قوم کے ناسور ہیں، یہ پھول نہیں
خوف سا آنے لگا ہے سرو و سمن سے یارو
جہاں ''سیاسی اسکینڈلز '' سامنے آئے جس صحافی نے جانبدار صحافت نہیں کی‘ یہاں تک کہ آئینہ دکھانے والے صحافی کو جان کے لالے پڑ گئے۔ جو صحافی اپنی قلم کی آبرو کو بچانے میں کامیاب ہو گئے انہیں موت کے گھاٹ اتار کر دوسروں کے لیے سامانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔قارئین اس دور ظلمت میں بے باک صحافی اب انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جن کی اس گلے سڑے تعفن زدہ نظام میں کوئی جگہ نہیں۔ دروغ گوئی کی بجائے حق بات کہنے کی پاداش میں انہیں ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔ اس استحصالی نظام کو نہ صرف صحافت بلکہ پورا ملک بھگت رہا ہے اور اشارے تو اتنے سنگین ہیں کہ کہیں ملک کا شیرازہ نہ بکھر جائے۔ اس پر مجھے جبیب جالب کی نظم یاد آگئی۔
خوب آزاد صحافت ہے
نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے
دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن
یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے
دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار
سب کو معلوم یہ حقیقت ہے
خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں
کس کی عزت یہاں سلامت ہے
٭…٭…٭