• news
  • image

عمران خان کا سیاسی بیانیہ بھارت کا پسندیدہ موضوع!!!!!


سابق وزیراعظم عمران خان لانگ مارچ کر رہے ہیں اور اس لانگ مارچ میں ان کا ساتھ دینے والے سیاستدانوں کی اکثریت یقیناً صرف ایک الیکشن کی خاطر آنکھیں بند کر کے عمران خان کے پیچھے پیچھے چلتی جا رہی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران تحریک انصاف نے جس انداز میں ملک کے دفاعی اداروں کو عوام کے سامنے کھڑا کیا ہے اور وہ عوامی اجتماعات میں افواجِ پاکستان اور حساس اداروں کو مسلسل متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات تو سو فیصد ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو ایک فیصد بھی سچ نہیں بتاتے وہ مبہم باتیں اس لیے کرتے ہیں کہ خود کو بچانے کا کوئی راستہ نکالے رکھیں، وہ اپنے مخالفین کو مختلف القابات سے اس لیے پکارتے ہیں کہ عوام کو ایسے چٹ پٹے بیانات پسند ہیں اور ایسے القابات عوامی سطح پر ناصرف مقبول ہوتے ہیں بلکہ اسے طنز کہہ کر بچا بھی جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ان کے کارکن یا حمایتی پاکستان تحریکِ انصاف کو پسند کرنے والے تو اپنے لیڈر کی باتوں کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کر لیں گے لیکن دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ دنیا ایسے معاملات کو مختلف انداز میں دیکھتی ہے اور ایسے سیاسی بیانیے پر دشمن ممالک کے خلاف کھل کر حملے کرتے ہیں۔ لاہور میں جس انداز سے عمران خان نے لانگ مارچ کا آغاز کیا ہے اور جیسے حساس ادارے کے سربراہ کو للکارا ہے یہ طرز تخاطب عمران خان کے لیے تو نیا نہیں ہے لیکن جس طرف انہوں نے حملہ کیا ہے اس ادارے پر ایسے بات کر کے وہ صرف اور صرف دشمن ملک کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔ عمران خان کی تقریر کی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ سب کچھ کہنے کے باوجود بھی یہ کہتے ہیں کہ میں ابھی خاموش ہوں، میں اپنے ملک اور ادارے کی خاطر خاموش ہوں۔ اگر ایسا ہی ہے تو گذشتہ چند ماہ کے دوران انہوں نے جو کچھ دفاعی اداروں کے حوالے سے کہا ہے کیا وہ اشاروں کی زبان میں باتیں کر رہے ہیں۔ 
عمران خان کے اس سیاسی بیانیے کو بھارت میں بھی مقبولیت مل رہی ہے چونکہ دنیا میں اگر کوئی پاکستان کی فوج کو کمزور یا بیک فٹ پر کرنا چاہتا ہے تو وہ بھارت ہے اور بھارت دہائیوں سے اس حوالے بھاری سرمایہ خرچ کر رہے ہیں، دنیا بھر میں لابنگ کرتے ہیں لیکن آج تک انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی لیکن حالیہ دنوں میں عمران خان کی وجہ سے بھارت کا یہ کام آسان ہوتا جا رہا ہے اور بھارتی میڈیا عمران خان کے اس سیاسی بیانیے کا بھرپور انداز میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے انہوں نے اعلانیہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ آئی ایس آئی کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ اور پاکستان کے دفاعی ادارے آمنے سامنے آئیں اور پاکستان میں انتشار پیدا ہو، دنیا میں پاکستان کے دفاعی اداروں کے حوالے سے منفی باتیں شروع ہو جائیں۔ بھارت اپنی کوششوں میں تو کامیاب نہیں ہو سکا لیکن عمران خان یہ کام شدت کے ساتھ کر کے مسلسل بھارت کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا مسلسل یہ بات کر رہا ہے کہ جو کام بھارت کرنا چاہتا ہے پاکستان میں وہ کام عمران خان کر رہے ہیں اور یہ بحث پی ٹی آئی کے سیاستدانوں کی موجودگی میں ہو رہی ہیں لیکن تحریکِ انصاف کے سربراہ اس ملک دشمن سیاسی بیانیے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں وہ دہشت گردوں سے تو مذاکرات کرنے کے حق میں ہیں لیکن پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سورج کی روشنی میں دفاعی اداروں پر تنقید کرتے ہیں رات کے اندھیرے میں انہی لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے۔ آزادی اظہارِ رائے کے نام پر جو کچھ ان کے دل میں ہوتا ہے وہ بول دیتے ہیں آج انہیں مہنگائی کا غم ستا رہا ہے لیکن اپنے دور حکومت میں وہ اس مسئلے پر بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ 
اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اداروں کی ساکھ کا ہے۔ پاکستان کی فوج نے سرحدوں کی حفاظت کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ملک میں امن بحال کرنے اور ملک کو دہشت گردوں سے صاف کرنے کے سفر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں کا خون شامل ہے۔ بدقسمتی ہے کہ عمران خان صرف اور اپنے اقتدار کے لیے اداروں کو متنازع بنانے کے راستے پر چل رہے ہیں۔ وہ بیانات تو مضبوط فوج کے حوالے سے جاری کرتے ہیں لیکن کام سارے فوج کو کمزور کرنے والے کر رہے ہیں۔ فوج کو نقصان پہنچانے کا مقصد پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنا ہے۔ عمران خان کے ساتھیوں کو اپنے انتخابات کو اہمیت دینے کے بجائے وسیع تر ملکی مفاد کو اہمیت دینی چاہیے۔ 
ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کو کچھ حقائق عوام کے سامنے رکھنا پڑے ہیں۔ یہ غیر معمولی صورتحال ہے اور اس کے بعد بھی اگر تحریکِ انصاف اپنے سیاسی بیانیے کو جسے ادارے تفتیش اور تحقیق کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی بیانیہ ہے اور اس میں حقیقت نہیں ہے۔ بھلے وہ سائفر کا معاملہ یا پھر اداروں کے ساتھ باہمی تعلقات اور پارلیمنٹیرینز کا ہر جگہ تصادم کی صورتحال ہے اور ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ابھی ہمیں اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ فوجی جوانوں کی لگن اور جوش وجذبے کو ملکی دفاع پر صرف ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہاں انہیں ہر وقت سیاسی کاموں میں الجھائے رکھنے اور بیرونی دنیا میں ان کی ساکھ خراب کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ یہ محاذ آرائی کسی بھی صورت ملک کے لیے بہتر نہیں ہے۔ عمران خان اگر ملک سے محبت کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہر وقت کسی دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہیں انہیں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور یہ حب الوطنی صرف حکومت میں رہنے سے ہی قائم نہیں ہے۔ اپوزیشن میں رہ کر بھی ملک و قوم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن