• news

جسٹس اطہر ، دیگر ججز کا دورہ اڈیالہ جیل ، قیدی بچوں کے مقدمات کیلئے الگ عدالت متعین کرنے کی ہدایت 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور ڈسٹرکٹ کورٹس پر ایڈمنسٹریٹیو جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اڈیالہ جیل میں قید نو عمر قیدی بچوں کے کیسز کو ترجیح بنیادوں پر دیکھنے کے لئے الگ سے کورٹ متعین کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سیشن ججزکو کہا ہے کہ نوعمر قیدی بچوں کی دیکھ بھال کی جانچ پڑتال کے لیے ایڈمنسٹریٹو جج بھی ہو گا۔ چیف جسٹس نے چیف کمشنر اسلام آباد کو حکم دیا ہے کہ قیدی نوعمر بچوں کے لیے پیر تک اڈیالہ جیل انتظامیہ کو سپیشل وین مہیا کی جائے۔ کم عمر قیدی بچوں کے بیرک میں اچھا افسر تعینات کرنے کی بھی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی چئیر پرسن کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں اڈیالہ جیل شکایت سیل قائم کر کے نوٹیفائی کریں جس میں ڈسٹرکٹ جوڈیشری سے ایک جج، ایک بار کا نمائندہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا صدراس کا ممبر ہو گا اور اڈیالہ جیل کے جو قیدی وکیل کرنے کی استظاعت نہیں رکھتے تو ان کے لئے فری لیگل ایڈ فراہم کرنے کا میکنزم بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سیشن ججز کو قیدیوں کے لیے کیس ای فائل سسٹم متعارف کرانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اڈیالہ جیل کے وزٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ،جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ارباب محمد طاہر، سیشن جج ایسٹ عطا ربانی،  سیشن جج ویسٹ طاہر محمود خان، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن پرسن رابعہ جویری آغا اور اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر بھی شامل تھے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ سمیت ججز نے اڈیالہ جیل کی سزائے موت کے قیدی، خواتین اور نوعمر بچوں کے بیرکوں کا دورہ کیا۔ ہسپتال، کینٹین، ملاقات کی جگہوں کا بھی دورہ کیا۔ چیف جسٹس نے آئی جی جیل خانہ جات اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو ہدایت کی کہ وہ اردو میں ترجمہ کر کے قیدیوں کو ان کے حقوق بتانے کے اقدامات کریں۔ بیرکس کے وزٹ کے دوران خواتین قیدیوں نے دن دو بجے شکوہ کیا کہ صبح چھ بجے سے انتظار کر رہے ہیں، کھانا ابھی تک نہیں دیا گیا، چیف جسٹس نے خواتین کو فوری طور پر کھانا فراہم کرنے کا حکم دیا۔ آئی جی جیل خانہ جات نے بتایا کہ اے کلاس ختم کر دی ہے، بی اور سی کلاس برقرار ہے، ایک قیدی نے شکوہ کیا کہ آج بھی پیسے دیکھ کر سارے کام ہوتے ہیں، منشیات بھی آتی ہے، پیسے نا دیں تو یہ پھر کہتے ہیں قانون میں نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا پچھلے دفعہ کے وزٹ کے بعد جیل سے متعلق بہتری کا فیڈ بیک آیا ہے۔ جیل حکام نے کام میں بہتری لائی ہے امید ہے اس میں مزید بہتری ہو گی، لیکن ابھی بھی قیدیوں کی کچھ شکایات آرہی ہیں، جیل کے اندر بہت سخت کرپشن ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہیں۔ جو شکایت کرتا ہے ان کو یہاں تنگ بھی کیا جاتا ہے، کرپشن، مارنا، گالیاں دیکر نکالنا، قیدیوں کے سامان کو نکال لینا بھی غیر اخلاقی ہے۔ چیف جسٹس نے سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ یہ کلچر آہستہ آہستہ تبدیل ہو گا آپ کو ڈسپلن قائم رکھنا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ایسا میکنزم ہو جس قیدی کی ضمانت ہو ڈسٹرکٹ کورٹ سے آپ کو آن لائن اطلاع مل جائے۔

ای پیپر-دی نیشن