سر سید کی جدوجہد اور آج کا پاکستان
آج بھی بہت سے پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ سرسیّد احمد خان نے 1857ء کے بعد جو طرزِ عمل اختیار کیا وہ غلط تھا۔ اس نقطۂ نظر کا حامل ایک گروہ اس وقت بھی تھا جس کا خیال تھا کہ انگریزوں سے مفاہمت کی بجائے ان کے خلاف جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ ان میں زیادہ تر علمائے دین تھے۔ آج بھی کچھ تکیہ نشیں اور کچھ کم فہمید علمائے دین یہی سمجھتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مغربی تعلیم حاصل کرنے والے مؤرخین اور ناقدین بھی انیسویں صدی کے نصفِ آخر کے ماحول کو سمجھے بغیر سرسیّد اور اس کے ساتھیوں کو انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنے میں منہمک رہتے ہیں۔ وارث علوی نے ایک جگہ ان لوگوں کو بتایا ہے کہ کسی دور کو سمجھنے کے لیے اس میں رہ کر اس کے تقاضوں کو سمجھنا پڑتا ہے۔ اگر آپ اس دور کو کھینچ کر اپنے زمانے میں لائیں گے اور اپنے زمانے کو مدِنظر رکھ کر سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ اسے سمجھ نہیں پائیں گے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ‘ (سنی سنائی بات دیکھی ہوئی بات جیسی نہیں ہوتی۔)
1857ء کا زمانہ تو اب ڈیڑھ صدی پرانا ہو چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں 1947ء کے دردناک حالات تو نسبتاً بہت بعد کی بات ہے جس کے عینی شاہد اب مجھ جیسے چند لوگ ہی رہ گئے ہیں لیکن خود ہمارے بچے بھی ہندومسلم مخاصمت کو نہیں مانتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بزرگ سخت مبالغہ آمیزی سے کام لے رہے ہیں۔ اس لیے سرسیّد اور ان کی تحریک کو جب تک اس زمانے میں جا کر نہ دیکھا جائے اسے سمجھنا ممکن ہی نہیں حالانکہ ہندوستان میں اب بھی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی خبریں ان تک پہنچتی رہتی ہیں مگر چونکہ پاکستان میں داخلی گروہی ٹکراؤ اب کسی اور نوعیت کا ہو چکا ہے اس لیے اسی کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن تقسیم سے پہلے کے ہندومسلم سکھ ماحول کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس زمانے کے بارے میں آپ لوگوں کو لاکھ بتائیں کہ 1857ء کے بعد خصوصاً مسلمانوں کو کس آگ اور خون کے سمندر سے گزرنا پڑا تو یہ بات ان کے لیے ماضی کے چند واقعات سے زیادہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔
1857ء تک ہندوستان کے مسلمان انگریزوں سے ٹکراؤ کی کوششیں کرکے دیکھ چکے تھے۔ 1757ء میں سراج الدولہ کے بعد عملاً بنگال پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ چند سال بعد بکسر کی جنگ میں میر قاسم، شجاع الدولہ اور شاہ عالم ثانی کی مدافعت بھی ختم ہوئی اور یو پی انگریزوں کے قبضے میں آ گئی۔ 1799ء میں ٹیپوسلطان کی شکست کے بعد پورے دکن پر انگریزوں کا تسلط ہو گیا۔ 1803ء میں شاہ عالم ثانی انگریزوں کی پناہ میں چلا گیا چنانچہ دہلی اور اس کے گرد و نواح کے علاقے پر بھی کمپنی بہادر کی حکومت قائم ہو گئی۔ رنجیت سنگھ کی زندگی تک پنجاب کا اقتدارِ اعلیٰ سکھوں کے ہاتھ میں رہا لیکن 1849ء میں پنجاب بھی انگریزی حکومت میں ضم ہو گیا۔
1757ء کے بعد سے کئی سال تک چند مسلم گروہوں نے انگریزوں کے خلاف اپنی سی سعی کی مگر وہ تمام تحریکیں جلد ہی دم توڑ گئیں۔ ان میں سب سے زیادہ منظم سیّد احمد بریلوی کی تحریکِ جہاد تھی۔ انھوں نے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں جہاد کے لیے لوگوں کی تربیت کی اور ایک اچھی خاصی فوج تیار کر لی۔ وہ پہلے سکھوں سے نبردآزما ہوئے اور ان پر غلبہ پانے کے بعد انگریزوں کو ملک سے نکالنا چاہتے تھے مگر پہلے مرحلے ہی پر شہادت کا رتبہ پایا اور حالات میں حسبِ منشا کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔ آخری کوشش 1857ء میں ہوئی۔ اچانک میرٹھ میں ہندوستانیوں سپاہیوں نے انگریز افسروں کی سخت گیری سے تنگ آ کر بغاوت کر دی اور دہلی پہنچ کر پنشن خوار بہادر شاہ ظفر کو بادشاہ بنانے کی کوشش کی۔ چند ماہ تک یہ ملک گیر شورش عروج پر رہی۔ اس میں ہندو مسلم دونوں شامل تھے جو عارضی طور پر بعض علاقوں پر قابض بھی ہو گئے مگر جگہ جگہ مختلف لوگ اپنا اپنا حکم چلانے لگے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ چونکہ کوئی مرکزی رہنما نہیں تھا۔ غرض انگریز دوبارہ قابض ہو گئے اور انھوں نے مقامی باشندوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی ایک جھلک گزشتہ کالم میں دکھائی جا چکی ہے۔
اب ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا۔ تمام مسلمان ریاستیں شکست کھا چکی تھیں۔ تحریکِ جہاد ناکام ہو چکی تھی۔ 1857ء میں ہزارہا خاندان تباہ و برباد ہو چکے تھے۔ ان حالات میں ایک ہی راستہ بچا تھا جو سرسیّد نے اختیار کیا یعنی انگریز سے مفاہمت کا راستہ تاکہ مسلمانوں میں ایک مڈل کلاس پیدا کی جائے۔ یہ انگریزی تعلیم اور انگریزی حکومت کی ملازمتوں کے حصول کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ سرسیّد اور ان کے ساتھیوں کا خیال یہ تھا کہ اس سے چند برسوں میں ایک باشعور اور خوشحال طبقہ وجود پذیر ہو گا اور مستقبل میں ہندی مسلمانوں کے لیے بہتر راستہ نکالے گا۔ یہ مقصد جزوی طور پر پورا ہوا، اگر مسلمانوں کے لیے یہ راستہ نہ نکالا جاتا تو زوال پذیر جاگیردار طبقہ اپنی باقی ماندہ جاگیریں بیچ کر فارغ ہو جاتا اور عام مسلمان مزدوری کرتے یا دفتروں میں چوکیدار اور چپراسی بن کر رہتے۔ جلد ہی وہ وقت بھی آ جاتا جب وہ نماز اور روزہ جیسے فرائض بھی ادا نہ کر سکتے۔سرسیّد نے دوسرا بڑا کام یہ کیا کہ مسلم معاشرے کی بعض بگڑی ہوئی عادات کو سنوارنے کی جدوجہد کی۔ یہ معاشرہ حد سے زیادہ تقدیر پرست تھا اور اس کی وجہ سے توہم پرستی اس کے رگ و ریشے میں سما چکی تھی۔ سرسیّد نے ’تہذیب الاخلاق‘، محمڈن ایجوکیشنل کانگریس اور سائنٹفک سوسائٹی وغیرہ کے ذریعہ انھیں ماضی کی تقلید پرستی سے نکالنے کی کوشش کی تاہم توہم پرستی کی جڑیں اتنی مضبوط تھیں کہ ان مصلحین نے بہت گالیاں کھائیں۔ سرسیّد اور ان کے تمام رفقاء کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا پھر بھی یہ لوگ اپنے راستے پر مضبوطی سے گام زن رہے اور ایک قابلِ لحاظ تعداد کو صحیح راستہ دکھا دیا۔
بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد توہم پرستی پھر مضبوط ہونے لگی ہے۔ جادوٹونا، جھاڑپھونک، مریدوں کے ذریعے پھیلائی جانے والی پیروں کی کرامتیں وغیرہ پھر سے عوام الناس کو گمراہ کرنے لگی ہیں۔ عوام تو جہالت کے ہاتھوں مجبور ہیں، ہمارے لیڈر اور دانشور بھی اس معاملے میں عوام سے بہتر نہیں ہیں۔ ضرورت ہے کہ انھیں سرسیّد، حالی، شبلی، نذیر احمد، محسن الملک، وقار الملک، مولوی چراغ علی وغیرہ کی تحریریں پڑھنے پر مائل کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ہم بدلے ہوئے حالات میں ان سے مکمل اتفاق کریں لیکن غور و فکر کے ذریعے ایک مثبت تبدیلی آئے گی اور تقدیر پرستی کی جگہ عقلی و استدلالی کا رجحان پیدا ہوگا۔ موجودہ دھندلکوں سے پاکستان کو نکالنے کا یہی ایک راستہ ہے جو سرسیّد نے ڈیڑھ سو سال پہلے مسلمانانِ ہند کو دکھایا تھا۔