• news

مذاکرات کیلئے تیار ، آرمی چیف تعیناتی پر بات نہیں ہوگی : شہباز شریف 

لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان سے مذاکرات کیلئے تیار ہوں‘ لیکن آرمی چیف کی تعیناتی پر بات نہیں ہوگی۔ لاہور میں یو ٹیوبرز سے گفتگو کی مزید تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب سے ہمارا روحانی اور دلی رشتہ ہے۔  سعودی ولی عہد جلد پاکستان تشریف لانے والے ہیں۔ پاکستان آمد پر ان کا شاندار اور پرتپاک استقبال کیا جائے گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ چین ہمارا ہمسایہ اور دوست ملک ہے۔ جلد ہی چین بھی جانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی نے مذموم مقاصد کیلئے دھرنے اور لانگ مارچ شروع کئے ہیں۔ 2014ء میں چینی صدر کی آمد پر بھی دھرنے تھے‘ چینی صدر نے خود ان سے درخواست کی تھی کہ 3 دن کیلئے اٹھ جائیں۔ ان کی وجہ سے چینی صدر کے دورے میں 7 ماہ تاخیر کا شکار ہوا۔ 4 سال میں انہوں نے کیا کیا ہے کہ یہ دوبارہ دھرنے دینے چلے ہیں۔ اس شخص کی نظر میں بس میں ہی میں ہوں اور کچھ نہیں۔ ایک کاروباری شخصیت میرے پاس عمران نیازی کا پیغام لیکر آئے۔ عمران خان کو جواب بھجوایا کہ مذاکرات   کیلئے تیار ہوں‘ لیکن آرمی چیف کی تقرری ایک آئینی معاملہ ہے۔ اس پر کوئی مذاکرات نہیں کروں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہم سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کا جواب ہوتا تھا کہ یہ چور ڈاکو مجھ سے این آر او مانگتے ہیں۔ عمران خان پہلے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے تھے‘ اب کہتے ہیں بات کر لیں۔ مخلوط حکومت دن رات محنت اور کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے 6 
ماہ گزر چکے‘ لیکن کوئی کرپشن کا الزام بھی نہیں لگا سکا۔ تیل اور گیس کی قیمتیں میرے اختیار میں نہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ تیل اور گیس کی قیمتیں کم ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عمران نیازی خائن ہیں۔ انہوں نے ملک وقوم سے دھوکا کیا۔ پاکستان کو برباد کرنے کا ایک منصوبہ بنایا۔ فرح گوگی سے مل کر ہیرے جواہرات لے کر میرٹ کی دھجیاں اڑائیں۔ عمران نیازی نے افواج پاکستان پر بھی تابڑ توڑ حملے کئے۔ ان کی جانب سے غیرآئینی طریقے سے پیشکش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان جس طرح اقتدار میں آئے اور جتنی حمایت عمران خان کو ملی‘ اتنی شاید کسی کو بھی نہ ملے۔ آئینی ادارے نے عمران خان کو 4 سال میں ہر طرح کی سپورٹ دی مگر پھر بھی یہ شخص ناکام رہا۔ دھکا لگانے کے بعد بھی یہ گاڑی نہیں چلی۔ اس ادارے نے آپ کو پالا پوسا، اس کا جتنا بھی شکریہ اداکریں کم ہے۔ جانور بھی یہ کام نہیں کرتا۔ ڈائن بھی 3 گھر چھوڑ کر حملہ کرتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ان واقعات کے شاہد نہیں جن کا میں ہوں۔ مجھے اجازت دیں کہ میں ان الزامات کا جواب دوں۔ ہٹلر اور عمران خان کے درمیان موازنے پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے‘ لیکن ہٹلر کے ساتھ بھی بڑی دنیا تھی۔ آپ نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ ملک اور معیشت کو برباد کردیا۔ آپ نے 50 لاکھ گھروں کے بجائے ایک اینٹ نہیں لگائی۔ بنی گالہ میں اپنا گھر قانونی کروا لیا اور دوسروں کے گھر مسمار کروا دیئے۔ ہٹلر نے تو جرمنی کی معیشت کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ جرمنی نے دنیا میں بہترین سڑکیں، دفاعی ساز وسامان اور گاڑیاں بنائیں اور پھرخود ہی سب کچھ تباہ کردیا‘ لیکن آپ کی جھولی میں تو کچھ بھی نہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ عمران نیازی دشمن کے ہاتھوں کھیل رہا ہے۔ عمران نیازی نے جو باتیں کیں‘ بھارت ان پر بغلیں بجارہا ہے۔ خیبر  پی کے اور پنجاب ساتھ ملا ہوا ہے‘ یہ وفاق پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اس سے بڑی سازش پاکستان کی ساتھ ہو نہیں سکتی۔ پی ٹی آئی کے ایک ساتھی کی آڈیو سامنے آئی ہے۔ اس کے بعد کوئی عقل سے عاری ہی ہوگا جو نہ سمجھے یہ خونی مارچ ہوگا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان گھڑی بیچ کر پیسہ قومی خزانے میں جمع کرواتا تو مان لیتا، گھڑی بیچ کرپیسہ جیب میں ڈالا گیا۔ عمران نیازی کا سب سے بڑا ڈاکہ 190 ملین پاؤنڈ کا ہے۔ یہ ڈاکا 50 ارب روپے کا ڈاکا ہے۔ اس پر قانون اپنا راستہ لے گا۔ اس نے غیرآئینی اور غیرقانونی حرکت کی تو قانون سے ناکام بنائیں گے۔ اسلام آباد کے ریڈزون جانے کی حرکت کی تو سخت کارروائی ہوگی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان اس ادارے کے خلاف باتیں کر رہا ہے جس نے اسے پالا پوسا۔ عمران نیازی نے افواج پاکستان پر حملے کئے جبکہ عظیم قربانیاں دینے والے ادارے کے خلاف زہر اگلا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ مجھے دورہ سعودی عرب میں عمران خان سے مہنگا تحفہ ملا ہے۔ وی لاگرز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ میں نے وہ تحفہ وزیراعظم ہائوس کی راہداریوں میں رکھے شو کیس میں نمائش کیلئے لگا دیا ہے۔
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ان کے دورہ چین سے پاکستان اور چین کے درمیان تذویرتی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور کاروبار اور تجارت میں اضافہ ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک (سی جی ٹی این) کو ایک انٹرویو میں کیا۔ وزیراعظم کا یکم نومبر کو چین کا سرکاری دورہ شیڈول ہیں۔ اپریل میں عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ان کا چین کا پہلا دورہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں واقعی بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں‘ وزیراعظم نے کہا کہ وہ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے چینی صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کی چیانگ اور چینی قیادت کے ساتھ بات چیت کے منتظر ہیں، پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے چین کی طرف سے دی جانے والی امداد پر چینی قیادت، لوگوں اور کمپنیوں کا شکریہ‘ انہوں نے کہا کہ چینی قیادت نے بہت بڑا تعاون کیا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جو کہ ایک اعلی معیار کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے تحت ملک کے تمام حصوں میں تعمیر کیے گئے سڑکوں کے نیٹ ورک نے سفر کا وقت کم کر دیا‘ وزیراعظم نے کہا کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت سی پیک کے کردار کو وسعت دینے پر بھی بات کریں گے۔مزید برآں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کارانہ تعلقات کو آزادانہ تجارت کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے تحت وسعت دینا چاہتا ہے تاکہ صنعتی تعلقات میں بھی بہتری آئی، ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون کے جذبہ کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹرکے تحت مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب تنازعات کا مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعہ پرامن حل چاہتے ہیں، پاکستان ایک مضبوط، پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کی راہ پرگامزن ہے، پاکستان چینی کمپنیوںکو صنعت، زراعت، انفراسٹرکچر، گرین انرجی اور ڈیجیٹل معیشت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع فراہم کرتا ہے، پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں اور ان کے منصوبوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے، پاکستان اور چین اپنے عوام کے روشن مستقبل کے ساتھ ساتھ خطہ کے امن و استحکام کیلئے تاریخ کی طرف سے ڈالی گئی ذمہ داری کو نبھانے کیلئے پرعزم ہیں۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز میں اپنے لکھے گئے ایک آرٹیکل میں وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین دوستی جیسا کوئی رشتہ نہیں جوگہری جڑوں اور مضبوط شاخوں کیساتھ ایک سدابہار درخت کی شکل اختیار کر چکاہے، اس نے اندرونی اور بیرونی تبدیلیوں کو برداشت کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کیلئے چین کے ساتھ تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ایک ایسے وقت میں چین کے دورہ کر رہا ہوں، جب چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 20 ویں قومی کانگریس کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی اور چین کی ترقی کے نئے دور کے آغازپراپنے بھائی جنرل سیکرٹری شی جن پنگ اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کو دلی مبارکباد پیش کرنا چاہتاہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہیں پورا اعتماد ہے کہ یہ دور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے ایک روشن باب کا آغاز بھی ثابت ہو گا۔ چین کی کامیابیاں میرے لئے ناقابل بیان تجسس کا موضوع رہی ہیں۔ میں چینی عوام کی بے لوث لگن، محنت اور مشقت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں، چینی رفتار قابل ذکر ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے میں نے صوبہ کی سماجی اور اقتصادی ترقی کیلئے اسی جذبہ سے کام کرنے کی کوشش کی، بطور وزیراعظم پاکستان میں اپنے ترقیاتی اہداف کے حصول کیلئے اسی طرح کے جذبہ کے ساتھ کام کرنے کیلئے پرعزم ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ 21ویں صدی کے تقاضے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ مواقع سے نمٹنے اور اپنے خطہ کو تنازعات اور افراتفری سے دور کرنے کیلئے ایک نئے دورکا تقاضا کرتے ہیں، ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون کے جذبہ کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات ہیں ۔ چین پاکستان تذویراتی شراکت داری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، پاکستان دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید گہراکرنے،باہمی تعاون جاری رکھنے، علاقائی امن وروابط کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھنے اور قریبی تعاون کی نئی بلندیوں تک بتدریج لے جانے کیلئے پرعزم ہے۔  چین پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ کاری کا شراکت دار ہے، ہم چین سے صنعتی تعاون کوبڑھا کر ان تعلقات کومزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔پاکستان چینی صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ابتدائی شراکت دار ہے، چین پاکستان اقتصادی کوریڈور نے چند سال کے مختصر عرصہ میں ہماری سماجی و اقتصادی ترقی میں نئی جان ڈالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا باقاعدہ آغاز سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے اعلیٰ معیار کی ترقی کے اگلے مرحلہ میں صنعت، توانائی، زراعت،ریل اور سڑکوں کے نیٹ ورک، گوادر پورٹ کوتجارت اور ترسیل، سرمایہ کاری اور علاقائی رابطوں کے مرکز کے طورپر ترقی دینے جیسے اہم شعبوں کو شامل کیا جائے گا، اپنے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے سی پیک کی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چینی عملہ اور منصوبوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے، پاکستان میں قیمتی چینی جانوں کاضیاع ہمارا نقصان ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہمارا رشتہ جسے صدر شی نے اپریل 2015میں پاکستان کی پارلیمان سے اپنے خطاب میں پہاڑوں سے اونچا، سمندروں سے گہرا اور شہد سے میٹھا قرار دیا تھا ہماری مشترکہ خواہشات کو حاصل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن