سیاسی قیادت کو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہئیں
پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے شرکاء اسلام آبادکی جانب رواں دواں ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ موجود ہے۔ امکانی طور پر لانگ مارچ کامونکی، گوجرانوالہ، ڈسکہ، سیالکوٹ، سمبڑیال، وزیر آباد، گجرات، لالہ موسیٰ، کھاریاں، جہلم، گوجر خان اور راولپنڈی سے ہوتا ہوا 4 نومبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ ادھر، وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے ریڈ زون کو زیرو پوائنٹ تک توسیع دے دی ہے۔ حکومت کی جانب سے زیڈ زون میں شامل کیے گئے علاقوں میں زیرو پوائنٹ تک کا علاقہ، فیصل ایونیو، مارگلہ روڈ، بری امام اور ففتھ ایونیو شامل ہیں۔ ریڈ زون کا حصہ قرار دیے گئے تمام علاقوں میں دفعہ 144 نافذ رہے گی اور توسیع شدہ علاقوں میں بھی ریلی ،جلسے یا اجتماع کی اجازت نہیں ہوگی۔
لانگ مارچ کے شرکاء سے ہفتہ کے روز شاہدرہ، فیروز والا اور مریدکے میں خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے کہتا ہوں کہ آپ کا کام بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اسلام آباد کا سفر صرف ایک وجہ سے کررہا ہوں کیونکہ آپ میرے بچوں کی طرح ہیں اور میں چاہتا ہوں آپ کی تربیت ہو اور پتا چلے کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ قوم چوروں کو نہیں مانتی، نہ ان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہے۔ ہم امریکا کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ آزادی چھین کر لینی پڑتی ہے۔ ایک سازش کے تحت ملک پر چوروں اور ڈاکوئوں کو مسلط کیا گیا، کوئی آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا، اس کے لیے جہاد کرنا پڑتا ہے، لانگ مارچ کے ذریعے سیاست نہیں کر رہے بلکہ اس ملک کی حقیقی آزادی کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔
لانگ مارچ کی لائیو میڈیا کوریج کے حوالے سے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ لوگ کم ہونے کا دعویٰ کیا جارہا، اگر لوگ کم ہیں تو اس گھبراہٹ اور ڈر کی وجہ کیا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ یہ تحریک متوسط طبقے کی تحریک ہے، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو نظام کو بدلنے کے لیے اظہار کرنا چاہتا ہے، ہزاروں لوگ نکلے ہیں جو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن نظام بدلنا چاہتے ہیں۔ اگر حکومت الیکشن کا اعلان کر دے تو ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ دوسری جانب،وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں۔ خونی مارچ کی بات کرنے والوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ سیاست میں مذاکرات کا آپشن ہمیشہ رہتا ہے لیکن مذاکرات سیاستدانوں کے ساتھ ہو سکتے ہیں، فارن فنڈڈ فتنے کے ساتھ نہیں۔
ادھر، وزیراعظم شہبازشریف نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے ایک ماہ پہلے مشترکہ کاروباری دوست کے ذریعے رابطہ کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھاکہ عمران خان نے کہا تین نام میں بھجواتا ہوں اور تین آپ دیں، مل کر آرمی چیف لگا لیتے ہیں، میں نے شکریہ کہہ کر انکار کردیا اور پیغام بھجوایا کہ یہ ایک آئینی فریضہ ہے جو وزیراعظم نے ادا کرنا ہوتا ہے۔ شہباز شریف کی زیر صدارت لاہور میں لانگ مارچ سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس کے دوران انھیں لانگ مارچ سے متعلق آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایات جاری کیں۔ وزیراعظم نے لانگ مارچ کو بلاجواز اور پاکستان کی ترقی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیا جائے گا۔
اس وقت ملک کو کئی طرح کے مسائل اور بحرانوں کا سامنا ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے جو بگاڑ آیا ہے وہ بھی اپنی جگہ ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں سیاسی قیادت کو متحد اور یک جہت ہو کر معاملات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے لیکن ہر کوئی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں پڑا ہوا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی قیادت میں سے کوئی بھی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا کہ سیاسی رسہ کشی کی قیمت ملک اور عوام ادا کررہے ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس بصیرت سے محروم ہے جس کا صورتحال اور حالات ان سے تقاضا کررہے ہیں۔ سیاسی قیادت اگر واقعی ملک کے ساتھ مخلص ہے اور عوام کے لیے ذرا سی بھی ہمدردی رکھتی ہے تو سیاسی قائدین کو اپنی انائیں اور ذاتی و گروہی مفادات پس پشت ڈال کر یہ دیکھنا ہوگا کہ ملک کو درپیش فوری مسائل کا حل کیسے فراہم کیا جائے۔ اس سلسلے میں صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔