وہ کون تھا؟(1)
چشم فلک نے اسلام آباد کی تاریخ میں اتنا بڑا جنازہ کم ہی دیکھا ہوگا۔ فیصل مسجد اندر اور باہر سے لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی‘ جہاں تک نظر جاتی سر ہی سر تھے۔ مارگلہ روڈ اور فیصل ایونیو پر ٹریفک جام تھی۔ دو دفعہ نماز جنازہ پڑھی گئی‘ پاکستان کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کا ہجوم تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔
وہ کون تھا؟
یہ سب اس کے عزیز واقارب نہیں تھے مگر تھے
وہ کون تھا؟
اس ہزاروں کے اجتماع میں وہ شاید چند ہی سے ملا تھا مگر وہ سب اس سے آشنا تھے۔
وہ کون تھا؟
جس کے جسد خاکی کی ائیر پورٹ پر آمد پر کئی شہروں سے لوگ کرائے پر گاڑیاں لے کر استقبال کرنے پہنچے تھے۔
وہ کون تھا؟
جس کی تدفین پر قبرستان میں موجود کئی لوگوں کے دل میں یہ خواہش ابھری کہ کاش اس تابوت میںارشد کے بجائے میں ہوتا
وہ کون تھا؟
وہ کوئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار نہیں تھا‘ وہ کوئی بہت بڑا افسر بھی نہیں تھا
وہ کون تھا؟
وہ تو محض ایک صحافی تھا‘ جسے لکھنا اور بولنا آتا تھا
آپ اس کے خیالات سے لاکھ اختلاف کریںلیکن اسے جو درست لگتا تھا وہ اس پر ڈٹ جاتا تھا۔
اللہ پاک سب کو جھوٹ سے بچائے،سب ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔عرصہ ہوا خود کو یہ کہتے ہوئے سنتا رہا کہ میں کسی سے حسد نہیں کرتا۔یہ جھوٹ میں نے اتنی بار اس اعتماد سے بولا کہ خود بھی اس پر یقین لا بیٹھا۔اس کی موت نے نا صرف میرے اعتماد کی دھجیاں اڑا دیں بلکہ سچ برہنہ ہو کر میرے سامنے کھڑا ہے اور میں اتنا کم ظرف ہوں کہ اب سچ سے نظریں ملا پا رہا ہوں اور نا خود سے، وہ ہم میں سے بہتوں سے اچھا تھا ،بہتر تھا۔کم از کم مجھ سے تو بہت بہتر تھا۔اس کے اچھے یا بہتر ہونے کا کیا فائدہ اگر اس نے مر ہی جانا تھا؟
مر تو سب نے ہی جانا ہے لیکن اتنی جلدی اور اس طرح مرنے کا کس نے سوچا ہوگا؟
قسمت بھی کیا چیز ہے ؟لکھنا ترک کرتا ہی ہوں کہ کوئی نا کوئی مر جاتا ہے اور مجھے پھر لکھنا پڑتا ہے۔ پتا نہیں مجھے کتنے ماتمی کالم لکھنے ہیں؟ کون جانے مجھے اچھا یا برا لکھنے کی عطا ہی اسی لیے ہوئی ہے کہ بچھڑ جانے والوں کے لئے دری بچھا کر"پھوڑی" پر بیٹھنے کو کوئی تو ہو!
ماہتاب بشیر نے کہا کہ آپ مرنے والوں پر بہت اچھا لکھتے ہیں۔بیگم گویا ہوئیں کہ آپ جتنے دل سے مرنے والوں کے لئے لکھتے ہیں اگر اس کا چوتھا حصہ توجہ بھی زندہ لوگوں پر صرف کریں تو آپکے پچھتاوے بہت کم ہوسکتے ہیں ،اسے کیا خبر کہ پچھتاوے ہی تو میری کمائی ہیں۔کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے کہ میں ڈھونڈ کر دکھ،تکلیف اور پچھتاوے اکٹھے کرتا ہوں۔بہت دنوں سے کئی مرتبہ سوچا کہ ارشد شریف اور صابر شاکر کا احوال لیتا ہوں کہ دونوں میرے کولیگ تو تھے ہی ہمسائے بھی رہے تھے لیکن اگر ہر ارادے کی تکمیل کر پاتا تو زندگی بہت مختلف ہوتی۔2012 ء میں ایک اخبار جوائن کیا تو ارشد شریف اسی ادارے کے ٹی وی کا بیورو چیف تھا۔اس سے پہلے اسے سکرین پر دیکھا تھا ۔ سکرین پر اس کی گفتگو اور اعتماد بہت بھاتا تھا ۔وہ مجھے کیا لاکھوں ،کروڑوں کو اچھا لگتا تھا۔اب اس سے ملاقات شروع ہوئی۔اس کے نقطہء نظر سے آپ لاکھ اختلاف کریں مگر اس کے دل موہ لینے والے انداز کو کوئی کافر ہی جھٹلا پاتا ہوگا۔ویسے پرنٹ میڈیا سے طویل عرصے کی وابستگی کے باعث اسے اور بہتوں کو کبھی خود سے بہتر نہیں سمجھا۔ مصنوعی غرور خود پر طاری کرنے والے میری بات کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں ۔اخبار میں میری چھپنے والی بعض خبروں کی تعریف اور مزید تفصیل نے اس کے لئے دل میں نرم گوشہ پیدا کیا تو مجھے بھی چاروناچار اس کے پروگرام کی تعریف کرنا پڑی ۔ہلکی پھلکی بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ،لیکن دل کھول کر تب کبھی بات نہیں ہوئی کہ وہ باتونی تو بالکل بھی نہیں تھا ۔پھر وہ ادارہ چھوڑ کر میں امریکا چلا گیا۔واپسی پر سرکاری خبر رساں ایجنسی جوائن کی لیکن جلد ہی ایک دوسرے چینل کو بطور بیورو چیف جوائن کیا تو وٹس ایپ پر پھر سے ہیلو ہائے شروع ہوئی لیکن بات نہیں ہوئی۔ پھر اس چینل کو چھوڑ کر ایک اخبار کو بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر سنبھالا۔ساتھ ساتھ اپنی رپورٹنگ کا سلسلہ پھر سے شروع کیا ۔ اس اخبار میں سویلین انٹیلیجنس ایجنسی کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے بارے اور ایجنسی کے اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے غفلت اور کاروبار سے متعلق بہت تفصیل سے رپورٹ کیا۔ ایک شام اچانک ارشد شریف کا فون آیا اسے ان خبروں کی مزید تفصیل ،دستاویز اور ذرائع سے متعلق کچھ پوچھنا تھا۔ معلوم پڑا کہ جس قسم کا دباؤ مجھ پر ڈالا جارہا تھا اسے بھی کسی اور سلسلے میں کافی دھمکیوں کا سامنا تھا ۔دباؤ‘ دھمکیاں اور خطرات تو جیسے روزمرہ کی بات ہے۔ہم نے بھی اس کال میں ان سب چیزوں کا بہت مذاق اڑایا ۔بات آئی گئی ہوگئی ۔
میں پانامہ کیس مقدمے کے فیصلے کے بعد سے بار ہا کہہ چکا ہوں کہ پانامہ کیس کے سامنے آنے کے بعد خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں جو کچھ کہا تھا وہ بالکل ٹھیک تھا کہ ’’میاں صاحب آپ فکر نا کریں‘ اس قوم کی یادداشت بہت کمزور ہے اور لوگ بہت جلد یہ سب کچھ بھول جائیں گے ‘‘۔
اس بات کے درست ہونے میں صرف ایک چھوٹی سی رکاوٹ تھی اور اس کا نام ارشد شریف تھا۔ میرے تجزئیے میں صرف ارشد شریف ہی نے ’’ون مین آرمی‘‘ کی طرح اس محاذ کو اکیلے ہی فتح کیا۔
انہی دنوں میں رات گئے دفتر سے واپسی پر ٹریفک سگنل پر اس کی جیپ میری گاڑی کے برابر آکر رکی۔ تھوڑا سا شیشہ نیچے کرکے حال احوال کیا پھر بیک ویو مرر میں دیکھتے ہوئے نجانے اسے کیا بھوت نظر آیا کہ اس نے سگنل کھلنے کا انتظار کیے بغیر ہی تیزی سے جیپ آگے بڑھا دی۔ میں جب گھر پہنچا تو اس نے واٹس ایپ پر ایک مختصر ’’سوری‘‘ لکھ کر جیسے کچھ اور بھی بتایا تھا۔کبھی کبھار کے وٹس ایپ پر خیریت کے عمومی پیغامات کے علاوہ کوئی لمبی چوڑی بات ہی نہیں ہوئی۔ اسی دوران میں نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ جوائن کرلیا۔ 2022ء فروری میں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے ایک عرصے کے بعد ’’دورہ روس‘‘ کا غلغلہ اٹھا۔ اس دورے کے بعد ہی پاکستان میں غلط یا صحیح ’’رجیم چینج‘‘ کی تھیوری متعارف ہوئی اور ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ اس دورے کی کوریج کے لیے جانے والے وفد میں ارشد شریف کے ساتھ میں بھی شامل تھا…
(جاری ہے)