چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا اڈیالہ جیل کا دورہ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دیگر جج صاحبان اور سیشن جج کے ہمراہ اڈیالہ جیل کا دورہ کیا۔ اس موقع پر نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے جیل اصلاحات کی تجاویز دیں جبکہ آئی جی جیل خانہ جات ملک مبشر اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اعجاز اصغر نے بریفنگ دی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نوعمر قیدی بچوں کے لیے الگ سے کورٹ متعین کرنے اورنوعمر قیدی بچوں کی دیکھ بھال کی جانچ پڑتال کے لیے ایڈمنسٹریٹو جج تعینات اور نوعمر بچوں کے کینسر ترجیحی بنیادوں پر دیکھنے کی ہدایت کے ساتھ چیف کمشنر کو جیل قیدی بچوں کے لیے سپیشل وین مہیا کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو کم عمر قیدی بچوں کے لیے اچھا آفیسر تعینات کرنے اور اردو میںترجمہ کرکے قیدیوں کو ان کے حقوق بتانے کی ہدایت کی۔ پاکستان میں جیلوں کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ہماری جیلوںمیں سزا پانے والے مجرم کی اصلاح نہیں کی جاتی بلکہ الٹا وہ جیل سے رہا ہونے کے بعد بڑے اور ’مستند‘ مجرم کے طورپر سامنے آتے ہیں۔ ہماری جیلوںپر جرائم پیشہ افراد کے گینگز کا قبضہ ہے۔ ان کی وہاں پر اپنی ایک سٹیٹ قائم ہو تی ہے۔ کوئی قانون، کوئی سرکاری افسران کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا۔یہ مجرم جس طرح وہ جیل سے باہر رہتے ہیں، اسی طرح وہ جیل کے اندر بھی پوری آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔ جہاں انھیں منشیات کا دھندا کرنے کی بھی کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔ جہاں تک نوعمر بچوں اور خواتین قیدیوں کا تعلق ہے، ان کی حالت سب سے بدتر ہے۔ نوعمر بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے اکثر واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن اس جانب کوئی حکومت بھی توجہ نہیں دیتی۔ اس کے علاوہ قید میں رہنے والے مرد، خواتین اور بچے جب کسی بیماری میں مبتلا ہو جائیںتو ان کی علاج معالجہ کی مناسب سہولیات بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔ جیلوں میں ایک نہیں، کئی مافیاز ہیں جن پر کسی کا بھی کنٹرول نہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا ساتھی ججوں کے ساتھ اڈیالہ جیل کا دورہ اصلاح احوال کا موجب بننا چاہیے، لہٰذا حکومت کو اس حوالے سے اس دورے کو نتیجہ خیز اور ثمرآور بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔