روس یوکرین جنگ کے توانائی کے وسائل پر اثرات
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
ماہرین معاشیات عالمی معاشی نمو کی رفتار میں توقع سے زیادہ کمی کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں، روس اور یوکرین جنگ کے بعد توانائی اور مہنگائی بحران کے سبب اہم معیشتوں کے کساد بازاری کا شکار ہونے کے خطرات ہیں۔یوکرین میں جنگ فروری میں شروع ہوئی جس کے بعدیورپ میں گرم موسم کی وجہ سے خشک سالی کے نتیجے میں سپلائی چین متاثر ہونے سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا رجحا ن رہا ۔ماہرین نے خبردار کیا کہ توانائی کی فراہمی میں مزید رکاوٹیں مہنگائی کو بڑھائیں گی اور شرح نمو پر اثر انداز ہوں گی، خاص طور پر یورپ میں مہنگائی بڑھنے سے متعد ممالک 2023کے پورے سال میں کساد بازاری کا شکار ہو جائیں گے۔ اس کی حالیہ مثال جرمنی کے روسی گیس پر انحصار ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشت اگلے سال 0.7فیصد تک سکڑنے کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے، یورپ میں مہنگائی اگست میں تاریخی اضافے کے بعد 9.1فیصد ریکارڈ کی گئی، یوکرین جنگ کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے یورپ کے مرکزی بینک پر شرح سود میں اضافے کے لیے دبا ئوبڑھ رہا ہے۔ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بینکوں کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے باوجود اس سال کے آخر تک یورپ میں مہنگائی 10فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔جبکہ رواں برس کے لیے عالمی معاشی شرح نمو 3فیصد رہنے کی توقع ہے۔
یورپ روس کی یوکرین میں جنگ سے براہ راست متاثر ہونے جا رہا ہے۔اگلے برس کے لیے عالمی پیداوار کا تخمینہ 2.8ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے جو اس جنگ سے قبل کے لگائے جانے والے او ای سی ڈی کے تخمینے سے کم ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے عالمی معیشت کی رفتار سست ہوگئی ہے۔ متعدد معیشتوں میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی)میں اضافہ رک گیا ہے، اور معاشی اشاریے مزید سست روی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ رواں برس یورو زون کی معاشی شرح نمو 3.1فیصد سے کم ہو کر اگلے سال صرف 0.3فیصد رہنے کی توقع ہے۔جرمنی کی معیشت کی شرح نمو ماہ جون کے تخمینے میں 1.7فیصد تھی،تاہم جرمنی نے تیل اور گیس کے حصول کے لیے یو اے ای سے بھی معاہدہ کر لیا ہے ، توانائی کی فراہمی میں مزید رکاوٹیں مہنگائی کو بڑھائیں گی اور شرح نمو پر اثر انداز ہوں گی،اور متعد ممالک 2023کے پورے سال میں کساد بازاری کا شکار ہو جائیں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے زری پالیسی کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے، اور حکومتوں کو ٹارگٹڈ مالیاتی پیکیج دینا چاہیے تاکہ صارفین اور کاروبار کو اعتماد مل سکے۔او ای سی ڈی کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی شرح نمو رواں برس کے 1.5فیصد سے کم ہو کر اگلے سال صرف 0.5فیصد رہنے کی توقع ہے۔
دوسری جانب چین کی جانب سے کووڈ-19پر قابو پانے کے سخت اقدامات کے بعد رواں برس شرح نمو 3.2فیصد اور اگلے برس 4.7فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ بڑی معیشتوں کے لیے تیزی سے بگڑتے معاشی منظرنامے کے باوجود مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، زیادہ تر مرکزی بینکوں کی پالیسی کی شرح اگلے سال 4فیصد سے اوپر جائے گی۔ یورپ میں مہنگائی اگست میں تاریخی اضافے کے بعد 9.1فیصد ہو گئی ہے، یوکرین جنگ کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے یورپ کے مرکزی بینک پر شرح سود میں اضافے کے لیے دبا ئوبڑھ رہا ہے۔یورپ کے 19ممالک کی کرنسی میں سالانہ افراط زر کی شرح 9.1فیصد تک پہنچ گئی جو اب تک کا ریکارڈ اضافہ ہے۔جولائی میں کنزیومر پرائس انڈیکس تیزی سے بڑھ کر8.9فیصد ہو گیا۔عالمی سطح پر سپلائی چین کے دبائو کی وجہ سے نومبر سے ہیڈ لائن مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے ۔
یورپی یونین میں سب سے کم شرح سود اگست میں 6.5فیصد فرانس میں تھی۔طاقتور جرمنی میں شرح سود 8.8فیصد، اٹلی میں 9فیصد اور اسپین میں 10.3فیصد تھی۔روس کے پڑوسی ممالک ایسٹونیا، لتھوانیا اور لٹویا میں شرح سود بالترتیب 25.2فیصد، 21.1اور 20.8فیصد رہی۔ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا کہ بینکوں کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے باوجود اس سال کے آخر تک یورپ میں مہنگائی 10فیصد تک پہنچ سکتی ہے اوراس مہنگائی میں اضافے پر مبصرین کو توانائی میں اضافے جتنا ہی پریشان ہونا چاہیے۔
توانائی کے وسائل کے اعتبار سے امریکا خام تیل استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔ امریکا سمیت دیگر ممالک کے مرکزی بینکوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کردیا ہے، جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ معیشت میں تنزلی سست روی کا باعث بن سکتی ہے۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ جب تک اوپیک پلس اپنے ہدف سے زیادہ تیل فراہم کر رہا ہے، اس لیے کسی بھی اعلان کردہ کٹوتی کا سپلائی پر زیادہ اثر نہیں ہو سکتا۔ اعدادو شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اوپیک پلس نے اگست میں یومیہ 35لاکھ 80ہزار بیرل کا ہدف پورا نہیں کیا جو جولائی سے بھی زیادہ کمی تھی۔اگر یہ صور حال برقرار رہی تو اس سے عالمی سطح پر کساد بازاری کا خدشات رہیں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ نومبر کے لیے برینٹ کروڈ فیوچر 1.35ڈالر یا 1.57فیصد کم ہوکر 84.80ڈالر فی بیرل ہوگیاہے، جس سے معاہدے میں 84.51ڈالر تک کمی ہوئی ہے جو 14جنوری کے بعد سب سے کم ترین سطح ہے۔امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں خام تیل کی قیمت نومبر میں ترسیل کے لیے 1.15ڈالر یا 1.46 فیصد کم ہو کر 77.59ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے اور ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں قیمت کم ہو کر 77.21ڈالر پر آگئی ہے جو 6جنوری کے بعد کم ترین سطح ہے۔رپورٹ کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد دونوں معاہدوں میں 5فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ڈالر انڈیکس جو بڑی کرنسیوں کے ساتھ مقابلے کی پیمائش کرتا ہے وہ 20 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
مہنگائی کے ساتھ بڑھتی ہوئی افراط زر روکنے کے لیے اہم مرکزی بینکوں کی طرف سے عالمی مالیاتی پالیسی پر دبا اور ڈالر میں دو دہائیوں کی بلند تر سطح کے اضافے نے معاشی سست روی کو جنم دیا ہے۔ماہرین کے مطابقیہ عوامل خام تیل کی قیمتوں کے لیے ایک پیش رفت کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ڈبلیو ٹی آئی کی قیمتیں 75ڈالر فی بیرل جبکہ برینٹ کے لیے 80ڈالر ایک سہارے کے طور پر کارآمد ہو سکتی ہیں۔روس-یوکرین جنگ سے تیل کی منڈی میں رکاوٹوں اور یورپی یونین کی خام تیل پر دسمبر میں شروع ہونے والی پابندیوں سے قیمتوں میں کچھ بہتری آئی ہے۔توانائی کی کمپنی ویٹول کے چیف ایگزیکٹو رسل ہارڈی نے کہا کہ ایندھن کی ترسیل متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے روسی تیل کی مصنوعات کی ایشیا اور مشرق وسطی میں آمد متوقع ہے جبکہ وہاں سے سپلائی یورپ جاتی ہے۔یورپی ملکوں میں روسی سپلائی کی قلت پوری کرنے کے لیے ہر روز امریکی خام تیل کے دس لاکھ سے زائد بیرل یورپ جاتے ہیں۔کولمبیا کی توانائی کی سرکاری کمپنی ایکوپیٹرول نے کہا کہ روسی سپلائی کی جگہ وہ یورپ کو زیادہ تیل فروخت کر رہے ہیں جبکہ ان کو ایشیا میں مارکیٹ شیئر کے لیے بڑھتا ہوا مقابلہ نظر آ رہا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب توجہ اس طرف مبذول ہو رہی ہے کہ پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم(اوپیک) اور روس کی قیادت میں اتحادی (اوپیک پلس ) اپنے آئندہ اہداف میں تیل کی پیداوار میں معمولی کمی پر اتفاق کے بعد کیا عملی اقدامات کریںگے۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ جب تک اوپیک پلس اپنے ہدف سے زیادہ تیل فراہم کر رہا ہے، اس کے نتیجے میں کسی بھی اعلان کردہ کٹوتی کا سپلائی پر زیادہ دیر تک اثر نہیں رہ سکتا۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛