• news

عمران کو تو ہین عدالت کا نو ٹس ہونا چا ہیے، تحمل سے کام لے رہے ہیں ، ہفتہ تک جواب دیں : سپریم کورٹ 


اسلام آباد( خصوصی رپورٹر)  سپریم کورٹ کا عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں کہنا ہے کہ 10ہزار بندے بلاکر 2لاکھ افراد کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی۔ جہموریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے۔ تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا غلط استعمال کیا۔ جو کچھ 25 مئی کے دن ہوا وہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت بہت تحمل سے کام لے رہی ہے، دستیاب مواد کے مطابق عمران خان کو نوٹس ہونا چاہئے، پھر بھی وضاحت کا موقع دے رہے ہیں، نیا جواب عمران خان کے دستخط کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اپنا قلم آئین کے خلاف نہیں استعمال کرسکتے۔ عدالت نے آئین اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہے۔ 25 مئی کے عدالتی احکامات کو توڑا گیا ۔ تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کسی وکیل نے عدالت کو نہیں بتایا کہ عمران خان سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ یہ سب ہمارے دماغ میں واضح ہے، عدالتی اعتماد کو توڑا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے عمران خان سے اپنے دستخطوں کے ساتھ تفصیلی جواب طلب کر لیا۔  سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے 25 مئی کے واقعات پر وضاحت طلب کرلی۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی جس میں صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے نوٹس نہیں کیے تھے، صرف جواب مانگے تھے، جوابات کا جائزہ بعد میں لیں گے، پہلے حکومتی وکیل کا موقف سن لیتے ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے تفصیلی جواب کے لیے وقت مانگا ہے، انہوں نے کسی بھی یقین دہانی سے لاعلمی ظاہرکی ہے، عمران خان نے جواب میں عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہارکیا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی، فیصل چوہدری کے مطابق ہدایت اسد عمر سے لی تھیں،فیصل چوہدری کے مطابق ان کا عمران خان سے رابطہ نہیں ہوسکا تھا، بابراعوان کے مطابق عمران خان کا نام کسی وکیل نے نہیں لیا تھا۔چیف جسٹس نے سوال کیاکہ 25 مئی کو پہلے اور دوسرے عدالتی احکامات میں کتنی دیرکا فرق ہے؟، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ پہلا حکم دن 11 بجے دیا گیا دوسرا شام 6 بجے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایات لینے کیلئے ہی تھا، عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی ہے، اگرکسی سے بات نہیں ہوئی تھی تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا؟ اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو عدالتی حکم کا کیسے علم ہوا؟ یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کرائی گئی تھی، پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے، عمران خان نے تفصیلی جواب کا وقت مانگا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 10 ہزار بندے بلاکر2 لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں کی جاسکتی جوکچھ 25 مئی کے دن ہوا وہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، ہم اپنا قلم آئین کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے،اس کیس میں بہت تحمل سے کام لے رہے ہیں ،عدالت کے پاس موجود مواد کے مطابق عمران خان کو نوٹس ہونا چاہیے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے پہلے املاک کو نقصان نہ پہنچانے کا کہا، ایچ نائن سے آگے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا مگر دو وکلا کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا، 25 مئی کے واقعات پر ایک جج اپنے حکم میں عمران خان کیخلاف کارروائی کا کہہ چکے ہیں ، عمران خان کو پھر بھی وضاحت کا موقع دے رہے ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے عمران خان سے 25 مئی کے واقعات پر ہفتے تک جواب مانگ لیا اور چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جواب عمران خان کے دستخط کے ساتھ ہونا چاہیے۔پی ٹی آئی وکلا بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی طرف سے صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون پیش ہوئے اور کہا کہ بابر اعوان اور فیصل چوہدری نے جواب جمع کرادیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دئیے کہ پی ٹی آئی نے 2014 ء میں بھی این او سی کی خلاف ورزی کی تھی، سپریم کورٹ میں عمران خان پر شرمناک کہنے پر توہین عدالت کا کیس چلا، دو مرتبہ عمران خان الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگ چکے ہیں، عدالت کئی مرتبہ تحمل کا مظاہرہ کر چکی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے۔ وکیل احسن بھون نے کہا کہ عدالت نے حکومت کو وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا، لیکن حکومت نے وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وکلاء کا رابطہ نہیں ہوا تو یقین دہانی کس طرف سے کرائی گئی؟، کیا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کیا گیا تھا؟۔وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں، میرا اسد عمر اور بابر اعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے، تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے، جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا؟۔فیصل چوہدری نے کہا کہ اسد عمر سے رابطے کے وقت عدالت کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم میڈیا پر بھی نشر کیا گیا تھا، عدالت نے 25 مئی کو توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، اسد عمر سے دوسری بار بھی رابطہ ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ 26 مئی کے حکم میں عدالت نے کہا کہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ عدالت نے پی ٹی آئی کی یقین دہانی پر حکومت کو ہدایت دی تھی، وکلاء کو ایچ نائن گراونڈ میں موجود ہونا چاہیے تھا، رات دس بجے تک تو آگ لگ چکی تھی، کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کہ کیا ہوا تھا؟۔جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ وکلاء نے کبھی نہیں کہا تھا کہ قیادت سے رابطہ نہیں ہوا تھا، واضح یقین دہانی پر ہی عدالت نے وکلاء پر اعتماد کیا تھا، جلسے کے مقام کے حوالے سے صرف ایچ نائن گراؤنڈ کا کہا تھا، تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا غلط استعمال کیا، عدالت نے تو پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا، عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گاڑی یا جہاز نہ ہونا صرف بہانے ہیں، عدالت کو یقین دہانی کروا کر بہانے نہیں کیے جاتے،  اسد عمر سے دوسری مرتبہ رابطہ کیسے نہیں ہوسکتا تھا، فیض آباد دھرنے کے دوران ایمبولینس میں لوگ مر گئے تھے، جمہوریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی کا بیان ہمارے دل کو لگا، انہوں نے کہا انکی عزت نفس مجروح ہوئی ہے،عدالت اس کیس میں بہت تحمل سے کام لے رہی ہے، ورنہ عدالت کے پاس موجود مواد کے مطابق عمران خان کو نوٹس ہونا چاہیے، پھر بھی انہیں وضاحت کا موقع دے رہے ہیں، تفصیلی جواب عمران خان کے دستخط کیساتھ ہونا چاہیے۔عدالت نے عمران خان کے وکیل کو تمام ویڈیوز بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ وکیل فیصل چوہدری پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا فیصل چوہدری صاحب پریشان نہ ہوں آپکو کوئی نوٹس نہیں ہے۔ عدالتی سوالات کے جواب میں وکیل فیصل چوہدری نے کہا توہین عدالت کے نوٹس سے زیادہ اپنے کیریئر کی فکر ہے۔ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں۔ اسد عمر کے ساتھ میرا رابطہ ہوا انہیں آگاہ کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے؟۔  تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے۔ اور اگر جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا اگر رابطہ نہیں ہوسکا تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت وکلا کو کیس میں فریق نہیں بنانا چاہتی۔ وکیل احسن بھون نے کہا ہمارے پاس کوئی جہاز یا ہیلی کاپٹر نہیں تھا کہ بند راستوں اور احتجاج کے اوپر سے جا کر عمران خان کو اطلاع دیتے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا گاڑی یا جہاز نہ ہونا صرف بہانے ہیں، گرائونڈ تک اجازت دی تھی تو آگے کس لئے جانا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد آپ اپنی یقین دہانی سے مکر گئے اور اب کہہ رہے ہیں جہاز نہیں تھا موٹر سائیکل نہیں تھا۔ ہمارے قائدین کو تو رول ماڈل ہونا چاہئے۔ میڈیا کے مطابق اعظم سواتی نے بھی پارٹس کو ٹچ کرنے کا کہا ہے۔ اعظم سواتی کا بیان ہمارے دل کو لگا۔ ہمارے سیاسی رہنما کیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔ اب بھی بہت احترام ہے۔ بنچ میں شامل ایک جج کا مؤقف تو واضح ہے کہ توہین عدالت میں شوکاز ہونا چاہئے۔ بابر اعوان اور فیصل چودھری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا عدالت کو جو بھی بات کریں‘ وہ سچ پر مبنی ہونی چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن