عمران خان کی مصالحت کی خواہش؟
وائس آف امریکا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا فی الفور اعلان کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ نے لوگوں کو اکٹھا کیا ہوا ہے۔ اصل میں جن کے پاس طاقت ہے ان کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ صاف شفاف الیکشن نہیں ہوں گے تو انتشار ہو گا۔گوجرانوالہ لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری مل کر پی ٹی آئی کو فوج سے لڑانے کی سازش کر رہے ہیں مگر میں نواز شریف نہیں کہ ملک سے بھاگ جائوں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو چیلنج کرتا ہوں واپس آ کر الیکشن لڑیں ان کے حلقے میں ہرائوں گا۔ اسلام آباد لانگ مارچ پہنچے گا تو پورے پاکستان کو کال دوں گا۔ عمران خان ان دنوں سخت ہیجان میں مبتلا ہیں۔ وہ جوش ِ جذبات میں وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جس کا بعد میں انھیں بھگتان بھگتنا پڑتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ ’یوٹرن‘ بھی لینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ عسکری اداروں پر گرجنے اور برسنے کے بعد اب وہ انھی ’طاقتوروں‘ سے استدعا کر رہے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں اور مصالحت کروائیں حالانکہ عسکری ادارے دوٹوک انداز میں واضح کر چکے ہیں کہ انھیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے یعنی اپنے فیصلے اہلِ سیاست خود کریں اور اہلِ سیاست کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے کے روادار نہیں۔ ملک کے واحد اپوزیشن لیڈر عمران خان حکومت سے ٹکرائو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، وہ انتخابات کے فی الفور انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن نہ تو وہ حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی الیکشن کمشنر پر اعتماد کرتے ہیں جبکہ عسکری قیادت کے غیر جانبدارانہ کردار کے بھی وہ سخت ناقد ہیں۔ ان حالات میں اگر انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو ان کے نتائج کو کون تسلیم کرے گا۔ عمران خان عوامی اجتماعات میں خطاب کرتے ہوئے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے۔ بہرحال حالات کا تقاضا ہے کہ وہ ذمہ دار اور سنجیدہ فکر سیاستدان کا رویہ اپنائیں۔ وہ اس ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اب انھیں ایسا کوئی بیان نہیں دینا چاہیے جس سے ان کی سبکی ہو۔ وہ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں لائحہ عمل تیار کریں اور ملک کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک محب وطن لیڈر کی طرح کردار ادا کریں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے معاملات جلد طے کرنے کی کوشش کرے تاکہ ملک جس عدم استحکام سے دوچار ہے اس کے خاتمے کی کوئی صورت بن سکے۔