وزیراعظم کا دورۂ چین: سی پیک منصوبوں کی جلد تکمیل پر اتفاق
پاکستان اور چین کی لازوال دوستی مثالی اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین مضبوط اور مستحکم تعلقات کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے اور بہت سے مواقع پر یہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کے ساتھ خلوص اور وفاداری کا ثبوت دے چکے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اس دوستی کی ایک دلیل ہے جس سے نہ صرف پاکستان اور چین مستفید ہوں گے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ سی پیک کی اہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت اور امریکا کو یہ منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور انھوں نے کئی بار اس منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کیں لیکن انھیں اپنے مذموم عزائم کے آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی، اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور ان کا یہ اعتماد سی پیک کے ذریعے مزید مضبوط ہورہا ہے۔
سی پیک پر خصوصی توجہ دینے کا عزم لے کر وزیر اعظم محمد شہباز شریف اعلیٰ حکام کا وفد لے کر دو روزہ سرکاری دورے پر منگل کو چین کے دارالحکومت بیجنگ پہنچے تھے۔ وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا چین کا پہلا دورہ ہے جو انھوں نے چینی ہم منصب لی کی چیانگ کی دعوت پر کیا۔ بیجنگ میں کل (بدھ کو) شہباز شریف کی چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم آفس کی طرف سے جاری بیان کے مطابق، ملاقات میں چین اور پاکستان کے درمیان باہمی خصوصاً اقتصادی شعبوں میں تعاون پر بات چیت ہوئی۔ چین اور پاکستان کے مابین سی پیک سمیت کثیر جہتی تعاون بڑھانے اور تزویراتی شراکت داری یعنی سٹریٹجک پارٹنر شپ مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ چین نے پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے 50 کروڑ یوآن کے اضافی امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات پاکستان اور چین کے مستحکم تعلقات کی ایک بڑی دلیل ہے کہ ملاقات کے دوران چینی صدر نے کہا کہ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ شہباز شریف اور شی جن پنگ میں کشمیر و افغانستان کی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی اور اتفاق ہوا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان علاقائی سلامتی و اقتصادی ترقی کو فروغ دے گا۔دونوں رہنماؤں کے مابین اتفاق ہوا کہ سی پیک کی افغانستان تک توسیع سے علاقائی رابطوں کو تقویت ملے گی۔ چینی صدر نے پاکستان کا جلد دورہ کرنے کی وزیراعظم کی دعوت قبول کرلی۔
شی جن پنگ کے علاوہ شہباز شریف کے چینی وزیراعظم لی کی چیانگ سے بھی ملاقات ہوئی جس میں سی پیک منصوبوں کی جلد ازجلد تکمیل اور انھیں وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ ملاقات کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان یادداشتوں اور معاہدوں پردستخط بھی کیے گئے۔ وزیراعظم کا دورۂ چین دونوں ممالک کے درمیان قیادت کی سطح پر مسلسل رابطوں کی کڑی ہے۔ چین روانگی سے قبل شہباز شریف نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے پاکستان اور چین دوست اور شراکت دار کے طور پر ایک ساتھ کھڑے ہیں، دورہ چین کے دوران چینی قیادت سے سی پیک کو تقویت دینے کے حوالے سے تبادلۂ خیال ہوگا۔ منگل کو سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر وزیراعظم نے کہا کہ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں ان چند اولین رہنمائوں میں شامل ہوں جنھیں چین کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی بیسویں تاریخی نیشنل کانگریس کے بعد چین کے دورے کی دعوت دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ ہمارے لوگوں کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ چینی معاشی کامیابیوں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ پاکستان اور چین کے تجارتی اور معاشی حوالے سے اپنے تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم بنارہے ہیں، اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے اور اس حوالے سے وہ کبھی اپنے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں ظلم و جبر پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کر کے کشمیریوں کے بنیادی حقوق پر قدغن لگاتے ہوئے مقبوضہ وادی کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اس کی طرف سے جنگی جنون کا اظہار کر کے پاکستان کو یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ طاقتور ہے، پاکستان اور چین کا معاشی اور تجارتی تعاون کو بڑھا کر خطے میں خوشحالی کے کام کرنا اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ کشمیر اور افغانستان کے بارے میں شہباز شریف اور شی جن پنگ کے دوران ہونے والی بات چیت بھی اس تناظر میں اہمیت رکھتی ہے۔