مہنگائی میں مسلسل اضافہ
وفاقی ادارۂ شماریات کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق، اکتوبر میں مہنگائی کی شرح مزید 4 اعشاریہ 7 فیصد بڑھ گئی جبکہ گزشتہ 12 ماہ سے مہنگائی ڈبل ڈجٹ میں برقرار ہے۔ اکتوبر کے دوران شہری علاقوں میں 24 اعشاریہ 6 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں مہنگائی 29 اعشاریہ 5 فیصد تک پہنچ گئی اور مہنگائی کی سالانہ شرح 26 اعشاریہ 6 فیصد ہوگئی۔ گزشتہ ماہ پیاز 68 فیصد اور ٹماٹر 41 فیصد مہنگے ہوئے۔ پھل 11 فیصد جبکہ سبزیاں ساڑھے 9 فیصد مہنگی ہوئیں۔ ایک ماہ میں چائے 10 فیصد، گندم کا آٹا9 فیصد مہنگا ہوا۔ خشک میوہ جات 6 فیصد، چکن 4 فیصد،گوشت دو فیصد سے زیادہ مہنگا ہوا۔ اس دوران بجلی کے نرخ 89 فیصد بڑھ گئے۔ ایل پی جی 296 روپے کلو مہنگی ہوئی اور گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 35 روپے اضافہ کردیا گیا۔ پی ٹی آئی دور میں عوام مہنگائی سے زچ ہوچکے تھے اور عمران خان کی مقبولیت کا گراف بھی نیچے گرنے لگا تھا۔پی ڈی ایم نے اس کا فائدہ اٹھایا اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کراکے اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ اتحادی حکومت مہنگائی کا خاتمہ کرکے عوام کو ریلیف دینے کا عزم لے کر اقتدار میں آئی تھی تو عوام نے اطمینان کا سانس لیا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سات ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے عوام کو معمولی سا بھی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ کرکے اس نے غریب آدمی کے لیے تن و تنفس کا رشتہ قائم رکھنا مشکل کر دیا۔ بدھ کے روز شائع ہونے والی ادارہ ٔشماریات کی رپورٹ حکومت کے لیے چشم کشا ہونی چاہیے۔ صرف ماہ اکتوبر میں مہنگائی کی شرح میںمزید 4 عشاریہ 7 فیصد اضافہ ہوا۔ حکومت عوام سے پٹرولیم مصنوعات پر اصل قیمت کے ساتھ کئی گنا اضافی ٹیکسز لے رہی ہے جبکہ بجلی کے نرخوں میں بھی اصل قیمت سے زیادہ مختلف ٹیکسوں کی بھرمارکی ہوئی ہے، اس کے باوجود حکومت کی طرف سے پیسہ پورا نہ ہونے کی شکایت سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کو عام آدمی کی مشکلات کا ادراک ہونا چاہیے اور وہ جو عزم باندھ کر اقتدار میں آئی تھی اسے عملی قالب میں ڈھال کر عوام کو مطمئن کرنا چاہیے۔ حکمران اتحاد نے اگر مہنگائی پر فوری قابو نہ پایا تو آئندہ انتخابات میں انھیں عوام کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔