سابق دور حکومت میں عملا بند سی پیک منصوبوں کیلئے پاک چین قیادت پھر سے کمر بستہ
قومی افق
عترت جعفری
ملک کے اندر سیاست اور سفارت کے محاذ کافی گرم ہیں،اور ان دونوںمحاذوں سے بہت اہم خبریں سامنے آ رہی ہیں جو ملک اور دنیا دونوں کے لئے اہمیت کی حامل ہیں ، وزیر آعظم شہباز شریف کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ چین کے دورے پر موجود ہیں ، جہاں ان کی چین کے صدر شی جن پنگ اور چینی ہم منصب کے ساتھ اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں ،جبکہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ سست روی کے ساتھ اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہے ،اس کو سلو ڈاون کیا گیا ہے جس کا مقصد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کے پس منظر میں ہونے والی سرگرمیوں کے نتائج یا کسی خاص واقعے کے رونما ہونے کا انتظار کر کے مارچ کو نیا رخ دیا جا سکے ۔
پہلے وزیر آعظم کے دورہ چین کا ذکر ہو جائے جو ملک اور خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے بے حد اہمیت کا حامل ہے ، یہ امر کسی سے یہ ڈھکا چھپا نہیں کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کے دور میں سی پیک عملاً بند ہو گیا تھا،اگرچہ کسی بھی جانب سے اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا ،موجودہ حکومت نے اس کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے لئے کافی ہوم ورک کیا جس میں وزارت خارجہ اور پلاننگ نے اہم رول ادا کیا تھا۔وزیر آعظم نے جب چین کی سرزمین پر قدم رکھا تو ان کے پاس ان تمام منصبو بوں کی فہرست موجود تھی جن پر چین کے ساتھ مل کر کام کرناہے ۔وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے صدر شی جنگ پنگ سے ملاقات کی اور دو طرفہ تعاون سمیت دیگر اہم امورپر تبادلہ خیال کیا۔ چین کے صدر شی جنگ پنگ سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے، سی پیک میں تعاون بڑھانے اور اسٹریٹیجک پارٹنر شپ مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میں آنے والے سپر فلڈ سے ہونے والی تباہی کے تناظر میں پاکستان کی امداد، بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں چین کی مدد پرچینی صدر کا شکریہ ادا کیا۔وونوں رہنماؤں نے دفاع، تجارت اور سرمایہ کاری، زراعت، صحت، تعلیم، متبادل توانائی،سائنس اور ٹیکنالوجی اور آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری سمیت متعدد امور پر تعاون پر تبادلہ خیال اور اس بات پر اتفاق کیا کہ سی پیک کے باعث اعلیٰ معیار کی ترقی سے پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے ،چینی صدر شی جن پنگ نے یقین دلایا کہ پائیدار اقتصادی ترقی اور جیو اکنامک حب کے طورپر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے چینی ہم منصب لی کیچیانگ سے ملاقات میں دو طرفہ امور اور باہمی تعاون بڑھانے کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی۔ ملاقات میں سی پیک منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل اور سی پیک کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو گریٹ ہال آف پیپلز میں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ملاقات کے بعد چین اور پاکستان کے مابین معاہدوں اور معاہدے پر دستخط بھی کے گئے۔،ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک پر قائم جے سی سی کا اجلاس ہوا ، جے سی سی کے اجلاس میں ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون منصوبے پر بات ہوگی ،اس کی منظوری پہلے ہی سی ڈی ڈبلیو پی نے دے رکھی ہے ،کراچی سے پشاور تک ریلوے کو جدید بنانے کے منصوبے ایم ایل ون کی فنڈنگ کو حتمی شکل دی گئی ،اسی طرح کے سی آر کا منصوبہ بھی طے پا گیا ہے ،چین سے ہائی اسپیڈ ٹرین کی ٹیکنالوجی در آمد کرے گا، جلد یہ ہائی اسپیڈ ٹرین پاکستان پہنچ جائیں گی۔چین کی جانب سے پاکستان کے لیے برامد کی گئیں ہائی اسپیڈ ٹرین کی 46 بوگیاں 3 نومبر تک روانا کر دی جائیں گی۔جبکہ مزید 184 بوگیوں کے پرزے اسمبلنگ کے لیے پاکستان کو دیئے جائیں گے۔چینی میڈیا کاکہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب چین یہ ٹیکنالوجی برآمد کر رہا ہے۔دریں اثنا حکومت سے حکومت کی سطح پر روس سے تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دے دی گئی ،گندم کی سپلائی کی پیشکش روس کے سرکاری ادارے نے 372ڈالر فی میٹرک ٹن کے حساب سے کرنے کی پیشکش کی تھی ،اسکی فراہمی15نومبر سے15جنوری کے درمیان کی جائے گی ، پیرس میں ڈونر کانفرنس ہونے والی ہے ،پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی بارے رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ جامع ریکوری فریم ورک ترتیب دیا جائے اور ملکی مالی وسائل کو بڑھا کرشراکت اور شفافیت کا اصول اپنانے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ زراعت میں مقامی نوعیت کی معاشی سرگرمیوں کا آغازضروری ہے۔رپورٹ میں کہا گیاکہ تعمیر نو پر16ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوں گے ۔پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب آرہا ہے ،اس کی وجہ سے جڑواں شہروں میں اگرچہ ابھی تک زند گی معمول پر ہے تاہم اس مارچ کی حدت کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔فریقین ایک دوسری کے خلاف پے در پے پریس کانفرنسیں منعقد کر کے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔تاہم ایسااس محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات جلد کرانے کے معاملے سے کہیں زیادہ فوکس کہیں اور ہے ، حکومت اور خاص طور پی ٹی آئی ،لانگ مارچ کو سست رو کرنے کے پس منظرمیں بھی یہی ایشوز لگ رہے ہیں۔کبھی لانگ مارچ کو انقلاب کہا جاتا اور کبھی اس مارچ کے کسی اور رنگ اختیار کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں ۔ بظاہر اس بے چینی کی وجہ سے کوئی اور ہے ،ہو سکتا ہے کہ دو چار روز میں ایک اہم تعیناتی کے فیصلے کے سامنے آنے کے بعد منظر نامہ بالکل واضح اور صاف ہو جائے ۔