سیلاب و دیگر وجوہات پر بلدیاتی انتخابات 3 مرتبہ ملتوی ہوئے
سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
کراچی کے عوام ایک بار پھر اپنا حق حاصل کرنے سے محروم ہوگئے۔ سندھ حکومت نے کراچی اور حیدرآباد میں 3 ماہ تک بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے تیسری مرتبہ معذرت کرلی۔ صوبائی حکومت نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے خط کا جواب دیتے ہوئے نفری کی کمی کے باعث معذرت کر لی۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کم از کم تین ماہ تک بلدیاتی الیکشن نہیں کراسکتے۔ صوبائی حکومت نے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا ہے کہ سندھ میں پولیس فورس موجود نہیں ہے۔ بلدیاتی الیکشن کیلئے37 ہزار پولیس اہلکار درکار ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کے باعث17ہزار پولیس اہلکار دیگر اضلاع سے نہیں آسکتے۔ لانگ مارچ کے باعث 5 ہزار پولیس اہلکار اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل سندھ حکومت کی درخواست پر سیلاب اور دیگر وجوہات کی بناء پر 3 مرتبہ کراچی و حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کئے جاچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کرانے سے متعلق سندھ حکومت سے یکم نومبر تک جواب طلب کیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی کیلئے کراچی ڈویژن میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کے معاملے پر جماعت اسلامی کراچی کے رہنما حافظ نعیم الرحمان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے اور بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے، الیکشن کمیشن کا 24 اگست کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے، سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی بھی کراچی ڈویڑن میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتیں۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ سندھ ہائیکورٹ 24 جون کو دونوں سیاسی جماعتوں کی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواستیں مسترد کرچکی، کراچی میں بارشوں کو بنیاد بنا کر بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیئے گئے، سندھ حکومت بلدیاتی اداروں پر کنٹرول قائم رکھنے کیلئے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کر رہی ہے۔درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کا 24 اگست کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دیا جائے، کراچی ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے احکامات جاری کیے جائیں۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں حال ہی میں کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی کے ووٹرز کی پسندیدگی میں تبدیلی واضح آئی ہے۔ پلس کنسلٹنٹ نے کراچی کے شہریوں کی رائے پر مبنی نیا سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق 32 فیصد شہری قومی اسمبلی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے لیے پہلی پسند کہتے ہیں۔ لیکن بلدیاتی انتخابات کے لیے کراچی کے شہریوں کی پہلی پسند جماعت اسلامی نظر آتی ہے۔ سروے کے مطابق ماضی میں کراچی کی اہم حکمران جماعت ایم کیو ایم پاکستان قومی اور بلدیات کے لیے ووٹرز کی پسندیدگی میں چوتھے اور پانچویں نمبر پر رہی۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام اپنی رائے قائم کر چکی ہے اور حکومت میں موجود کسی بھی جماعت کو انتخابات میں کامیابی نہیں ملے گی۔ عوام حکومت اور اپوزیشن میں موجود کسی بھی سیاسی پارٹی پر بھروسہ نہیں کرتے اور وہ ان لوگوں کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں جو جاری سسٹم میں موجود نہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کراچی میں انتخابات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے اور عوام کو اس کا حق نہیں دیا جا رہا۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب تک پیپلز پارٹی کی حکومت مختلف بہانوں سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرتی رہے گی۔ کبھی تو اسے الیکشن کرانا پڑے گا، پیپلز پارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں اپنی شکست نظر آرہی ہے، ان کے ساتھ ایم کیو ایم کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ عوام کا نظریہ تبدیل ہو گیا ہے۔ عوام ایم کیو ایم کو آزما کر دیکھ چکی اب دوسری پارٹیوں کی باری ہے۔ آخر ایک نہ ایک دن تو عوام کو اس کا حق دینا پڑے گا۔