پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بد ترین کارکردگی
پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ 1947ء میں ملک کے بننے سے پہلے کی ہے اور اسکی مقبولیت میں 1992کے ورلڈ کپ کی جیت کے بعد سے جو عروج آیا تھا اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہاکی جو کہ پاکستان کا قومی کھیل اور اس میں چار مرتبہ پاکستان چیمپین بھی رہ چکا ہے ، اب ملک میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ موجودہ ٹی 20ورلڈ کپ کی بات کریں تو پاکستان کی ٹیم مسلسل ناکامیوں کے بھنور میں پھنسی نظر آتی ہے، اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ ٹی 20میں حالات کے رحم و کرم پر آچکی ہے تو یقنی طور پر غلط نہیں ہو گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیم کو اس نہج پر پہنچانے میں کس کس کا اور کتنا کتنا کردار رہا ہے۔؟ ہمارا المیہ دیکھیے کہ زمبابوے جیسی ٹیم نے ہرار کر شاہینوں کی تمام آس و امیدوںپر پانی پھیر دیا ہے ۔ اب صورتحال کچھ یوں ہو چکی ہے کہ پاکستانی شایقئن کرکٹ کبھی بھارتی کرکٹ ٹیم کی ہارنے کی دعا کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی اس کی جیت کی دعا کرتے ملتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم مسلسل آوٹ آف فام آ رہے ہیں مگر مجال ہے جو انھوں نے اپنی بیٹنگ پوزیشن کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی ہو۔ پاکستان کے تمام لیجنڈ کرکٹرز اس بات سے متفق ہیں کہ انھوں اپنی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بیٹنگ لائن کو دوبارہ سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ آسٹریلیا میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد اگر بورڈ اور ٹیم انتظامیہ کے بیانات کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ سیاستدانوں سے بیانات دینے کا فن سیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ دس برس میں پی سی بی میں ہونے والی بد انتظامی اورغلط تقرریوں کی وجہ سے سیاستدانوں کو کرکٹ میں کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کا موقع میسر آیا ہے۔یہ قومی کھیل ہے جس سے قومی جذبات نتھی ہیں اور ایک ایک کرکٹ میچ پر اشتہارات کی صورت میں اربوں روپے کا بزنس ہوتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں روپے سالانہ کمانے والے یہ کرکٹر خود کو ہیرو تو سمجھتے ہیں مگر دوسری جانب ساری کی ساری کرکٹ کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کر رکھ دیا ہے۔یہ سلسلہ 1999ء میں مجیب الرحمان جیسے کرکٹ اور انتظامیہ سے بالکل نابلد شخص کو بورڈ کا چیئرمین مقرر کرنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور اب تک جاری ہے۔پی سی بی کے آئین کیمطابق گورننگ بورڈ میں سے ہی چیئرمین پی سی بی کا انتخاب لازمی قرار دیا گیا ہے مگر منتخب پیٹرن ان چیف وزیراعظم کے نامزد کردہ 2 افراد میں سے ایک ہی ہوتا ہے، دیگر ارکان ربڑ اسٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہیں۔بطور کپتان بابراعظم سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ پاکستان کو ٹی20 ورلڈ کپ جتوائیں گے لیکن انکی ٹیم جلد باہر ہونے کے قریب ہے اور انہیں خود اپنی بیٹنگ اور قیادت کے بارے میں بڑھتے ہوئے سوالات کا سامنا ہے لیکن دنیا کے بہترین بلے بازوں میں شمار ہونے والے اس کھلاڑی نے آسٹریلیا میں اب تک تین میچوں میں صرف آٹھ رنز بنائے ہیں۔وہ اس ٹورنامنٹ کے اپنے پہلے میچ میں روایتی حریف بھارت کیخلاف پہلی گیند پر صفر پر آؤٹ ہو گئے تھے۔ اس میچ کی آخری گیند پر بھارت نے پاکستان کو ہرا دیا تھا۔ پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچنے کیلئے دیگر نتائج کا بھی انتظار کرنا ہو گا۔اسکے بعد جب پاکستانی ٹیم زمبابوے کیخلاف ایک رن سے ہاری تو 28 سالہ بابراعظم نے صرف چار رنز بنائے۔ابتدائی کیریئر پر اگر نظر ڈالیں تو مئی 2015ء میں بابر کو زمبابوے کیخلاف ہوم سیریز کیلئے پاکستانی ون ڈے ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ آسٹریلیا کیخلاف ایک روزہ سریزی میں ایک ذلت آمیز شکست کے بعد اظہر علی کی کپتانی سے سبکدوشی کے بعد سرفراز احمد کو اظہر علی کی جگہ ویسٹ انڈیز کیخلاف ون ڈے ٹیم کا کپتان مقرر کیا۔ دورے کیلئے اعظم کو ون ڈے میں نائب کپتان مقرر کیا گیا تھا۔ آج بابر اعظم ٹیم کے کیپٹن ہیںاس لئے سب سے زیادہ ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔ بابر اعظم جب تک غرور و تکبر سے باہر نہیں نکلیں گے اور اپنی کارکردگی پر توجہ نہیں دینگے ، اس وقت تک وہ اچھے کھلاڑی بن سکتے ہیں اور نہ ہی اچھے کپتان۔ اوپنر کیساتھ ساتھ میڈل آرڈر بیسٹ مین افتخار احمد ، شان مسعود، حید ر علی، محمد آصف بھی مسلسل قوم کو مایوس کر رہے ہیں۔