ملک دشمن بیانیے کی پذیرائی کیوں
ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنے اختلاف کا عمدہ اور زوردار بیان میں اظہار کرے۔ مگر یہ کیا کہ اپنی ہر پریشانی کو ملک سے جوڑ کر اپنے ہی ملک پر دشنام طرازی کریں۔ گھر کی چار دیواری کے اندر جو اختلافات ہوتے ہیں۔ اس کا حل بھی مل جل کر گھر کے اندر ہی کیا جاتا ہے۔یہ کہیں بھی نہیں ہوتا کہ گھرمیں تکلیف ہو تو گھر کو ہی آگ لگا دی جائے۔ ہمارے ہاں یہ طریقہ بن گیا ہے کہ آزاد خیالی کے نام پر سول سوسائٹی اور پر لبرل طبقے کانفرنس بلا کر ناراض یا منفی نظریات رکھنے والوں کو دعوت فکر دی جاتی ہے جو آئو دیکھتے ہیں نا تائو۔ جھٹ سامعین کو لبھانے کیلئے خود کو مسیحا ثابت کرنے کے لیے ظلم و ستم زیادتی اور حقوق کی آڑ لے کر ملک کو برا بھلا کہتے ہیں۔ علیحدگی کی باتیں کرتے ہیں۔ عدلیہ کو فوج کو رگیدتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی بااثر ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنے علاقے میں شہر میں یا گلی میں بھی کوئی عوامی مسئلہ حل نہیں کرتے۔ کیا مجال ہے جو کسی نے کوئی نلکا لگایا ہو، کسی غریب کو روزگار دیا ہو، کسی بے گناہ کی ضمانت کرائی ہو۔ یہ پھنے خان تیس مار قسم کے لوگ خود آرام دہ زندگی گزارتے ہیں اچھا کھاتے اور پیتے ہیں۔ ان کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ جو ذرا مفلوک الحال ہیں وہ بھی پیسے کمانے کے چکر میں خود کو انقلابی بنانے کے لیے اوٹ پٹانگ بیانات دیتے ہیں تقاریر جھاڑتے ہیں تاکہ واہ واہ ہو۔ لوگ انہیں انقلابی مانیں اور مال ملے۔
اسماعیل راہو، منظور پشتین ہو یا مجید بلوچ یہ سب کوئی ایک مثال دیں کہ انہوں نے کسی ایک بھی عوامی مسائل کو حل کیا ہو کسی کی مدد کی ہو، سیلاب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں کسی قوم پرست علیحدگی پسند، لبرل ٹولے نے کسی متاثر کے سر پر ہاتھ رکھا ہو۔ کسی کی مالی مدد کی ہو۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس جو لاہور میں ہوئی اس میں یہی سندھی، بلوچ، پشتون قوم پرستوں اور پنجابی لبرلز نے جس طرح حکومت کی آڑ میں فوج کو برا بھلا کہا ان پر نشتر چلائے وہ بھول گئے کہ ایس تقاریر وہ کسی صوبے میں نہیں کر سکتے جو یہاں کر رہے ہیں اور سب سن رہے ہیں یہ ہوتا ہے لبرل ازم یہ ہوتا ہے برداشت و تحمل اظہار رائے کی آزادی۔ کیا کوئی پنجابی مقرر سندھ، بلوچستان یا خیبر پی کے میں جا کر ان ہی کیخلاف ایسی تقریریں کر سکتا ہے ، جیسی انہوں نے پنجاب کے خلاف نام لیکر کی۔ ایک بلوچ مقرر مولانا حبیب کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ ہمارے علاقے میں سکول نہیں ہسپتال نہیں قدم قدم پر فوجی چوکیاں ہیں۔ ہمیں ٹیچر دو فوجی نہیں۔ کوئی ان سے پوچھے بلوچستان میں ٹیچر کیوں نہیں۔ وہاں اپنے بلوچوں اور پشتونوں نے سندھ میں سندھی ہی خیبر پی کے میں پٹھان ہی وسائل پر قابض ہیں۔ اس طرح پنجاب میں پنجابی اشرافیہ قابض ہے۔
فوجی آمروں میں ایوب خان، یحییٰ خان پٹھان، ضیاء الحق مہاجر پنجابی اور پرویز مشرف اردو سپیکنگ مہاجر تھا۔ فوج میں آج بھی زیادہ تر پشتون اور پنجابی پھر سندھ اور بلوچ ہیں۔ اس طرح تو پٹھان اور پنجابی دونوں شریک جرم ہیں تو گالیاں صرف ایک کو کیوں دوسرے کیوں معصوم ہیں۔ پکڑنا ہے تو اپنے سرداروں، نوابوں، وڈیروں جاگیرداروں ، چودھریوں اور خانوں کے گریبان پکڑیں جو گزشتہ 75 سالوں اپنے اپنے صوبے کے وسائل پر قابض ہیں۔ ان کے سامنے آپ کی دال نہیں گھلتی۔ چلیں یہ سب چھوڑیں کم از کم یہ اپنے اپنے حلقے میں ہی کچھ ایسے کام کر جاتے جس سے عوام کو ریلیف ملا ہوتا تو ہم ان کے حق میں بولتے۔
اب تو فوج بھی کہہ رہی ہے کہ وہ 20 سالہ سابقہ غلطیوں کا ازالہ کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو انہیں کرنے دیں۔ ہم جو جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں ہم جمہوری عمل کو نافذ کرکے جمہوریت کی حمایت کرے اسے کیوں اتنا مضبوط نہیں بناتے کہ ہمارے مسائل ہم خود ہمارے نمائندے حل کر سکیں۔ ہم خود اپنے مخالفوں کو کچلنے کے لیے پولیس ، فوج اور عدلیہ کی مدد چاہتے ہی۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اگر یہ محافظ درمیان سے ہٹ جائیں تو وزیرستان، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں کیا ہو گا۔ یہ سرحدوں پر یا دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے جوان پٹھان بھی ہیں بلوچ بھی سندھی بھی ہیں پنجابی بھی ہم ان کی قربانیوں پر کیسے خوشیاں منا سکتے ہیں۔ یہ ہمارے ہی بیٹے ہیں۔ حبیب صاحب بھی جانتے ہیں راہو صاحب بھی، پشتین صاحب بھی اور مجید بلوچ والے بھی کہ دہشت گرد اور طالبان اور بھارت کے لے پالک صرف اسی لیے دبکے ہیں کہ درمیان میں فوج محافظ ہے۔ ورنہ ان علاقوں میں جو تباہی و بربادی ہو گی اس کا تصور ہی روح فرسا ہے۔ خیبر پی کے میں طالبان، بلوچستان میں قوم پرست، سندھ میں لسانی گروہ جو کشت و خون مچائیں گے وہ سب جانتے ہیں بلوچستان میں بلوچ پٹھان، سندھ میں سندھی مہاجر، خیبر پی کے میں طالبان اور قوم پرست باہم دست و گریباں ہوں گے۔ پنجاب میں مادر پدر آزاد لبرل اور مذہب پرستوں کے درمیان جو رن پڑے گا جو دیکھنے کے لائق ہو گا۔
ہاں اگر بطور فیشن یہ ہرزہ سرائی ہوتی ہے دل پشاوری کرنا ہوتا ہے تو کوئی بات نہیں ورنہ جو دکھ اور درد موجود ہیں ان کا مداوا ہمیں خود کرنا ہو گا جب سب کو حقوق ملیں گے انصاف ملے گا تعلیم ملے گی روزگار ملے گا تو پھر کہیں بھی فوجی چوکیوں کی ضرورت نہیں رہے گی لوگ خود اپنے ملک اور نظام کے محافظ تو بن کر دکھائیں پھر کسی کو ملک کے خلاف بولنے کی حاجت ہی نہیں رہے گی۔