سورۃ بقرہ کے مضامین (19)
اُمّت وسط اورشہادت علی الناس : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اس امر کا ادراک کروایا گیا کہ اللہ رب العزت نے تمہیں امتِ وسط بنایا ہے:’’یعنی جیسے ہم نے قبلہ کے معاملے میں تمہیں راہ راست اختیار کرنے کی توفیق بخشی اسی طرح ہر معاملہ میں تمہیں امتِ وسط بنایا ، وسط کا لفظ قابلِ غور ہے ،اس کا معنی ہے درمیان ، ہر چیز کا درمیانی حصہ ہی اس کا عمدہ ترین حصہ ہوا کرتا ہے۔انسان کی زندگی کا درمیانی عرصہ عہد شباب اس کی زندگی کا بہترین وقت ہے، دن کے درمیانی حصہ دوپہر میں روشنی اپنے نقطہء عروج پر ہوتی ہے ، اسی طرح اخلاق میں میانہ روی قابلِ تعریف ہوتی ہے ، افراط اورتفریط دونوں پہلو مذموم ، بخل اورفضول خرچی کی درمیانی حالت کو سخاوت ، بزدلی اورطیش کی کے درمیانی حال کو شجاعت کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ محمد یہ کو اس عظیم المرتبت خطاب سے سرفراز فرمایا ان کے عقائد، انکی شریعت، انکے نظام اخلاق، سیاست اوراقتصاد میں افراط اورتفریط کا گزر نہیں ، یہاں اعتدال اورتوازن ہے ، موزونیت ہے ، جب مسلمانوں کو اپنے اس عظیم منصب کا پاس تھا، اس وقت ان کا ہر قول اورفعل آئینہ تھا، اس ارشادربانی کا ، لیکن آج تو ہم یوں بگڑ چکے ہیں کہ قرآن میں جس امت کے محاسن بیان کئے گئے ہیں ہم پہچان ہی نہیں سکتے کہ وہ ہم ہیں، اللہ ہمارے حال زار پر رحم فرمائے ، آمین۔
اسی طرح امت محمد یہ گواہ (شہید )ہے دنیا میں بھی اورآخرت میں بھی دنیا میں اس کی گواہی اسلام کی شہادت پر ہے ، کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات کی زندہ تصویر ہے ۔
دنیا میں اس کا ہر قول ، ہر فعل اس کی انفرادی اوراجتماعی خوشحالی ، اس کی سیرت کی پختگی اوراس کے اخلاق کی بلندی ہر چیز اسلام کی صداقت پر گواہی دے رہی ہے اورقیامت کے روز جب اگلے پیغمبر وں کی امتیں اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کریں گی کہ ہمیں کسی نے تیرا پیغام ہدایت نہیں پہنچایا تواس وقت امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دے گی کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں تیرے پیغمبر وں نے تو تیرا پیغام حرف بحرف پہنچادیا تھا اورجب ان پر اعتراض ہوگا کہ تم اس وقت موجود ہی نہ تھے تم گواہ کیسے بن گئے تو یہ جو اب دیں گے کہ اے اللہ تیرے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ تیرے رسولوں نے تبلیغ کا حق اداکردیا ، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی صداقت اورعدالت کی گواہی دیں گے ۔ (ضیاء القرآن )