• news

لانگ مارچ پر فائرنگ کا واقعہ، حتمی رپورٹ کا انتظار کیا جائے 

وزیر آباد کے قریب اسلام آباد کی جانب رواں دواں لانگ مارچ پر تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے کنٹینر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں عوامی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں قیاس ارائیاں جاری ہیں جبکہ پارٹی کارکنوں کی طرف سے شدید ردّعمل بھی ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن اس واقعہ کے پیچھے کون لوگ ہیں، موقع پر پکڑے جانیوالے نوجوان کے بیان کی حقیقت کیا ہے اور کیا یہ کسی ایک شخص کا انتقامی اظہار یا انتہا پسندانہ عمل ہے یا اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ اس میں ملوث ہیں۔ یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات زبانِ زدعام ہیں جن کے شافی جوابات تو تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی مل سکیں گے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف، وفاقی وزرائ، حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ سراج الحق سمیت دیگر سیاسی رہنمائوں نے نہ صرف اس افسوسناک واقعہ کی مذمت کی ہے بلکہ اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کروانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ وزیر اعظم نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب سے اس بارے میں رپورٹ طلب کریں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی اس واقعہ کی مذمت کی گئی ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سمیت تمام زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی گئی ہے۔مزید برااں عالمی سطح پر امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، کینیڈا یورپی یونین اور آئی سی اور دیگر ممالک اور تنظیموںکے سربراہوں نے بھی لانگ مارچ کے دوران فائرنگ اور عمران خان سمیت 13 پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کے زخمی ہونے کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تشدد کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ 
عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال میں پارٹی رہنما اسد عمر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس قاتلانہ حملے کا ذمہ دار وزیر اعظم شہباز شریف ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور خفیہ ایجنسی کے ایک سینئر آفیسر کو ٹھہرایا ہے اور ان تینوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی ہدایت کی ہے۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے لانگ مارچ کے واقعہ اور عمران خان کی طرف سے لگائے گئے مذکورہ الزامات کے حوالے سے حکومتی سیاسی رہنمائوں کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پرباہمی مشاورت کی جائے گی اور واقعہ کی انکوائری کے سلسلے میں پنجاب حکومت سے تعاون اور جوائنٹ انویسٹی گیشن کی پیشکش کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ 
 دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے شوکت خانم کینسر ہسپتال میں زیر علاج عمران خان کی عیادت کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ واقعہ میں ملوث تمام ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس سے بھی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ انہوں نے آئی جی کو اعلیٰ سطح کی جے آئی ٹی تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی۔ 
لانگ مارچ میں ہونے والے اس افسوسناک واقعہ کے جو بھی محرکات ہیں وہ شفاف تحقیقات سے ہی سامنے آ سکیں گے لیکن ایک بات جو ظاہر و باہر ہے وہ سکیورٹی سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پولیس اور لانگ مارچ انتظامیہ کو کسی بھی دہشت گردی کے واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا اور یہ خدشات بھی ظاہر کئے جا رہے تھے کہ اس لانگ مارچ میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے جس کی تصدیق خود پی ٹی آئی کے ایک رہنما فیصل واوڈا بھی کر چکے ہیں تو پھر پنجاب حکومت، پولیس اور لانگ مارچ انتظامیہ نے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیوں نہیں کئے۔ عمران خان ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ لاہور سے شروع ہونیوالے لانگ مارچ میں ان کی جان کے تحفظ کے لئے خصوصی انتظامات کرنا پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کی ذمہ داری تھی جبکہ انکے کنٹینر پر فائرنگ کا واقعہ بھی پنجاب کی حدود میں رونما ہوا جو بدترین سکیورٹی لیپس کی عکاسی کرتا ہے۔ اس طرح مجرمانہ غفلت برتی گئی اور ایک نوجوان اسلحہ کے ساتھ کسی رکاوٹ کے بغیر عمران خان کے کنٹینر تک پہنچ گیا اور اس کے نتیجے میں ایسا افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس نے قومی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت ایک طرف اس واقعہ کے خلاف وفاقی حکومت اور حکومتی اداروں پر برس رہی ہے اور دوسری طرف وہ اپنا لانگ مارچ بھی جاری رکھنے پر بضد ہے۔ چونکہ ابھی اسلام آباد تک پہنچنے میں کافی سفر درکار ہے اس لیے یہ تمام سفر پُرخطر قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر سکیورٹی کے کماحقہ انتظامات نہ کئے گئے اور متشددانہ طرزِ تکلم اسی طرح برقرار رکھا گیا تو یہ مزید ایسے واقعات کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ایک طرف پی ٹی آئی کے قائدین شعلہ بیانی سے عوام کے جذبات کو بھڑکا رہے ہیں تو دوسری طرف حکومتی اکابرین بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے ان شعلوں کو ہوا دینے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 
 اس قسم کا رویہ انتہا پسندانہ سوچ کو جنم دیتا ہے جس کا خمیازہ ملک و قوم پہلے ہی بھاری جانی و مالی نقصان کی صورت میں بھگت چکی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ فریقین کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔ گالی کا جواب گالی سے دینے کا مطلب آگ کو بھڑکاناہے۔ اس لئے اس سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے۔ پُرامن احتجاج، مظاہروں یا ریلی کا انعقاد آئین کی روسے ہر فرد اور جماعت کا حق ہے اسے اس حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا بشرطیکہ یہ پُرامن ہو اور اس سے نقصِ امن کا خطرہ لاحق نہ ہو، تاہم گزشتہ روز لاہور، راولپنڈی، پشاور اور ملک کے دوسرے شہروں میں پی ٹی آئی کی جانب سے جس طرح پرتشدد اور گھیرائو جلائو پر مبنی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا گیا اسکے تناظر میں ملک میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوتی نظر آرہی ہے۔ لانگ مارچ پر فائرنگ کے واقعہ کی شفاف تحقیقات وقت کا تقاضا ہے اس سے پہلے کسی بھی قسم کی الزام تراشی مناسب نہیں ہے۔ حتمی رپورٹ کا انتظار کیا جائے اور اس رپورٹ کے آنے تک سیاسی فضا کو خوشگوار بنائے رکھنا تمام اہلِ سیاست کی اخلاقی، قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو پر امن رہنے کی ہدایت دے اور انہیں احتجاجی مظاہروں اور توڑ پھوڑ کی کارروائیوں سے روکے۔یہ ملک موجودہ حالات میں جلاؤ گھیراؤ ایسی تخریبی اور غیر سیاسی سرگرمیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اسی طرح سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ اس نوع کا افسوس ناک واقعہ دوبارہ وقوع پذیر نہ ہونے پائے ۔

ای پیپر-دی نیشن