وزیراعظم پاکستان کا دورۂ چین
پاک چین تعلقات کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی لیڈر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتا ہے وہ امریکہ سعودی عرب اور چین کا دورہ ترجیحی بنیادوں پر کرتا ہے جس کا ایک پوشیدہ مقصد عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے کہ دنیا کے بڑے ملک حکومت کو اہمیت دے رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمران بیرونی دوروں کے بڑے دالدہ رہے ہیں۔ حکمران اپنے ہمراہ بڑے وفد لے کر جاتے ہیں جن پر بے دردی کے ساتھ قومی خزانے کے کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ کسی طالب علم کو حکمرانوں کے بیرونی دوروں پر پی ایچ ڈی کرنی چاہیے اور تحقیق کرنی چاہیے کہ بیرونی دوروں پر قومی خزانے سے کتنے وسائل خرچ ہوئے اور ان سرکاری دوروں کا پاکستان کی ریاست کو کیا فائدہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں سویڈن کا دورہ کیا اور اپنے ساتھ کم و بیش ایک سو افراد لے گئے۔ سویڈن کے وزیراعظم جو اپنی کار خود ڈرائیو کرتے تھے، وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ملاقات کرنے کیلئے دس منٹ تاخیر سے پہنچے اور بھٹو صاحب سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ مہمانوں کی زیادہ گاڑیوں کی وجہ سے مجھے اپنی کار پارک کرنے کیلئے جگہ دور ملی اس لیے تاخیر ہو گئی۔ سویڈن کے وزیراعظم کی اہلیہ نے خاتون اول بیگم نصرت بھٹو کو اپنے گھر پر چائے کی دعوت دی اسکے پاس کوئی ملازم نہیں تھا اس نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے تیار کی اور بیگم نصرت بھٹو کو پیش کی۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا چین کا دورہ روایتی نوعیت کا ہے۔ اس دورے کے دوران وزیراعظم پاکستان نے چین کے صدر وزیراعظم اور پارٹی لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ان ملاقاتوں کے بعد روایتی نوعیت کے بیانات جاری ہوئے جو پاکستان کے عوام پہلے کئی بار سن چکے ہیں۔وزیراعظم پاکستان کا چین کا دورہ مجموعی طور پر کامیاب رہا جس میں مختلف نوعیت کے معاہدے بھی کیے گئے۔ چین کے لیڈر وزیراعظم میاں شہباز شریف کے پرانے دوست ہیں لہٰذا چین میں انکی ملاقاتیں دوستانہ اور خوشگوار رہیں۔
وزیراعظم پاکستان نے چینی سرمایہ کاروں سے بھی ملاقات کی اور ان کو یقین دلایا کہ پاکستان میں ان کو سازگار ماحول فراہم کیا جائیگا ۔ ان کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔ انہوں نے بتایا کہ جو چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں انکے بقایا جات کی ادائیگیوں کے سلسلے میں حکومت نے ایک سو ساٹھ ارب روپے بھی جاری کر دیے ہیں اور آئندہ بیوروکریسی کو تاخیری حربے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔ چین کی حکومت اپنے شہریوں کی سکیورٹی کیلئے بڑی فکر مند رہتی ہے۔ پاکستان دشمن عناصر جو پاکستان کو ترقی یافتہ نہیں دیکھنا چاہتے وہ چین کے شہریوں کو ٹارگٹ کرتے رہتے ہیں تاکہ سی پیک کے منصوبے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکیں۔ وزیراعظم پاکستان نے چینی قیادت کو یہ یقین دہانی کرائی کہ جو چینی شہری پاکستان میں اپنے فرائض انجام دیںگے ان کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائیگی۔
چین کی حکومت جو پہلے ہی سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کر رہی ہے اس نے پانچ سو ملین یوان مزید فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دورے کے دوران کراچی سرکلر ریلوے اور ایم ای ون ریلوے کی تعمیر پر خصوصی مشاورت کی گئی۔ دونوں ملکوں کی قیادت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ان دونوں منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی کوشش کرینگے۔اس دورے کے دوران حسب روایت بہت سے تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے گئے ۔ ایک معاہدے کے مطابق چین کے سرمایہ کار سولر بجلی کی پیداوار کے سلسلے میں سرمایہ کاری کرینگے جس سے دس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔ اس دورے کے دوران یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ چین پاکستان سے ڈالر کی بجائے چینی یوآن میں تجارت کریگا۔ جس سے پاکستان کی مالی بحرانی کیفیت بہتر ہوگی۔ چینی کرنسی سے ڈالروں کی بجائے یوان میں قیمت ادا کرکے روس سے سستا تیل خریدا جا سکے گا۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ چین اپنی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو اہمیت دیتا رہے گا۔پاکستان چین کو اپنی خارجہ پالیسی میں سنگ میل سمجھتا ہے اور پاکستان کے عوام چین کی دوستی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔پاکستان چین کی ون چائینہ پالیسی کی مکمل حمایت کرتا ہے دونوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ افغانستان کا امن علاقائی امن اور استحکام کیلئے لازم ہے اور کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہئے۔
چین کے لیڈروں کو اکثر یہ گلہ رہا ہے کہ پاکستان کے لیڈر معاہدے تو کر لیتے ہیں لیکن انکی بروقت تکمیل سے اکثر قاصر رہتے ہیں۔ چین کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے اور ایک مضبوط اور مستحکم ملک بن جائے مگر افسوس پاکستان کے لیڈر چین کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس میں گزشتہ چالیس سالوں کے دوران سب حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت شامل ہے جس کا اندازہ اس سچائی سے لگایا جاسکتا ہے کہ قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ سی پیک کا منصوبہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھول سکتا ہے لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ چین کی دلی خواہش اور تعاون کے باوجود ابھی تک پچیس بلین ڈالر کے منصوبے بھی مکمل نہیں کیے جا سکے جبکہ ہمارے برادر ہمسایہ ملک ایران نے چین کیساتھ جو معاہدے کیے ہیں وہ آنیوالے 25 سال کے دوران ایران کے اندر مختلف منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے۔ پاکستان کے جو خاندان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آتے ہیں قومی ترقی اور خوشحالی ان کا ایجنڈا ہی نہیں ہوتی۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران خاندان تو خوشحال ہو گئے ہیں مگر پاکستان غریب اور مقروض ہو کے رہ گیا ہے۔ جب تک مفاد پرست اور موقع پرست خاندانوں کو سیاست سے نکالا نہیں جائیگا پاکستان کسی صورت ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ۔ عوام یہ بات جس قدر جلد سمجھ جائینگے اتنا ہی ان کیلئے پاکستان کی سیاست کیلئے اور ان کی آنے والی نسلوں کیلئے بہتر ہوگا۔
جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئیگا گڈگورننس نہیں ہوگی۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کو قائم نہیں کیا جائیگا اور شفاف احتساب نہیں ہو گا۔ اس وقت تک بیرونی ملکوں کے دوروں کے ثمرات حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر عمران خان پر افسوس ناک قابل مذمت قاتلانہ حملہ ہوا ہے جس میں عمران خان سمیت تحریک انصاف کے تیرہ افراد زخمی ہوئے اور ایک کارکن معظم شہید ہوا ۔ قاتل گرفتار ہو چکا ہے لہٰذا اس قتل کے منصوبہ سازوں تک پہنچنا مشکل کام نہیں ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ شہید ہونے والے شخص کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو جلد صحت یاب کرے۔