بھارت کے غیر محفوظ ہتھیار
ایک جانب بھارت دنیا میں واویلا کرتا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار محفوظ نہیں ہیں اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ گزشتہ برس مارچ میں بھارتی حدود سے ایک میزائل فائر کیا جاتا ہے جو پاکستان کی حدود میں آ کر گرتا ہے وہ تو خوش قسمتی سے پاکستان کی حدود میں نقصان نہیں ہوتا۔ بھارت کی جانب سے اس واقعے کو "حادثاتی لانچ" قرار دینا اور ایئر فورس کے تین افسروں کو غفلت برتنے پر برطرف کرنا بذات خود بھارت کی نااہلی اور انتہائی تباہ کن ہتھیاروں سے نمٹنے میں غیر سنجیدہ رویہ کا ثبوت ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی جوہری نگران اداروں کو ایران اور پاکستان پر عالمی پابندیاں لگانے کی بجائے بھارت کے جوہری ہتھیاروں کا معائنہ کرنا چاہئے۔پاکستان کی جانب سے بارہا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان کی حدود سے فائر کئے جانے والے اس میزائل سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں کچھ گڑ بڑ موجود ہے۔ وہ بھارت جو دنیا کو اپنے ہتھیاروں کی مضبوطی اور اسکے محفوظ ہونے کے متعلق بتاتا ہے لیکن ایک میزائل فائر ہو جاتا ہے اور اس کے متعلقہ حکام کو بر وقت پتہ بھی نہیں چلتا۔ پاکستان نے متعدد بار مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کی مشترکہ تحقیقات ہونی چاہئے لیکن ہندوستان کی جانب سے اس معاملے کو نظر انداز کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی سرکار اپنی طرف سے بے شمار تکنیکی غلطیوں کا پتہ لگانے کے خوف سے مشترکہ،غیر جانبدارانہ انکوائری کے مطالبات کو ٹال رہا ہے۔اگر ہم ہندوستانی افواج کے ڈھانچے اور ہتھیاروں کے متعلق 2017 ء میں بنائے گئے جوائنٹ ڈاکٹرائن انڈین آرمڈ فورسز کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستا ن میں جوہری ہتھیاروں کے لانچ کی اجازت صرف وزیر اعظم ہی دے سکتے ہیں جو ہندوستان کی نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) کے سربراہ ہیں، دوسری جانب بھارت دعوی کرتا ہے کہ جوہری صلاحیت کے حامل براہموس میزائل کا نام نہاد حادثاتی طور پر کم سطح سے لانچ کیا گیا ہے یعنی اصل ملزمان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت کی جوہری صلاحیتوں پر پاکستان نے سوال اٹھایا ہو یا یہ سوال اٹھانا بے مقصد ہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ ہندوستانی فضائیہ کے افسران بھی ہندوستانی سٹریٹجک اثاثوں کی حفاظت اور حفاظت کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہیں۔بھارت نے اس حادثے سے متعلق جو رپورٹ پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ تین نچلے لیول کے افسران اس میں ملوث تھے۔ اگر رپورٹ کا ہی جائزہ لیں توانکوائری رپورٹ میں شفافیت کا فقدان ہے اور متفقہ کوڈز کے اہم سوال کو نہ اٹھانے کیلئے کئی الگ الگ کمیونیکیشن چینلز پر بھیجے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بھارت کے اس براہموس میزائل کے متعلق جانچ کریں تو ہندوستانی فوج نے پہلے ہی پاکستان اور چین کے ساتھ سرحدوں پر براہموس کی 3 ایکس رجمنٹ کو تعینات کر رکھا ہے۔ ایک چوتھی براہموس رجمنٹ کو بھی شامل کرنے کیلئے منطوری دے دی گئی ہے۔
مارچ 2022ء کا براہموس میزائل بحران یہ بھی بتاتا ہے کہ جوہری صلاحیت کے حامل ہندوستانی میزائل پہلے ہی پاکستان کے مقابلے کمانڈ پوزیشنوں پر لانچ میں تعینات ہیں۔ اس لیے یہ اقدام پاکستان کے ردعمل کو جانچنے کے لٹمس ٹیسٹ کا تاثر دیتا ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ بھارت نے اس خیال سے یہ میزائل پاکستان کی حدود میں فائر کیا تھا کہ یہ جانچ سکے کہ پاکستان کی مسلح افواج اور اس سے منسلک ادارے کتنے ہوشیار ہیں۔ کیا وہ بھارت کے کسی حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں یا اس وقت خواب غفلت میں ہیں لیکن بھارت کا یہ خیال پاکستان نے باطل ثابت کر دیا ہے اور بھارت کو بتا دیا کہ پاکستان کی مسلح افواج پاکستان کے ایک ایک چپے کا دفاع کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔لیکن دوسری جانب بھارتی حماقت کہہ لیں یاسوچی سمجھی سازش کا نام دیں اس پر عالمی دنیا کو بھی آواز اٹھانی چاہئے کہ بھارت ایٹمی میزائل کو کیسے اس طرح استعمال کر سکتا ہے کہ اس کی اعلی قیادت بھی اس سے لا علم رہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اس معاملے میں بھارت کی اعلی قیادت ملوث تھی اور بھارت نے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کیلئے نچلی سطح کے افسران کو قربانی کا بکرا بنا کر پیش کیا ہے تا کہ دنیا کو پیغام دے سکے کہ بھارت کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں۔ بھارت جیسے بزدل دشمن کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے کہ ماضی میں بھی اس نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کرنے کی غلطی کی تھی تو پاکستان نے دن کے اجالے میں اسکے طیاروں کو زمین بوس کر کے دنیا کو پیغام دیا تھا کہ پاکستانی فوج وطن کے دفاع کیلئے نہ صرف تیار ہیں بلکہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے اسکے جوان چاک و چوبند ہیں۔ بھارت براہموس میزائل داغ کر پاکستان کو ڈرا نہیں سکتا جس طرح پاکستان کی مسلح افواج نے ماضی میں بھی بھارتی جارحیت کا دفاع کیا تھا اسی طرح آئندہ بھی بھارت کی کسی بھی جارحیت کا مقا بلہ کرنے کیلئے تیار ہے۔