چار چراغ تیرے بلن ہمیشہـ
دُور س معنی سے لبا لب بھرا یہ خوبصورت شعر مکمل صورت میں کچھ یوں ہے
چار چراغ تیرے بلن ہمیشہ
پنجواں مُیں بالن آئی بلا جھولے لالن
میرے لئے یہ تجربہ ہمیشہ حیرتناک رہا ہے کہ میں نے جب بھی کسی موضوع پر لکھنے کیلئے قلم اٹھایا تو موضوع سے متعلق خوبصورت الفاظ اور خوبصورت اشعار کہیں سے اڑتے ہوئے آتے ہیں اور میرے قلم کی نوک پر بیٹھ جاتے ہیںاور میر ے لکھنے میں سہولت اور سنوار آجاتا ہے۔ سوچ اور فکر کی عادت، لکھنے کے دورسے بھی بہت پہلے مجھے گھیرے ہوئے تھی اب وقت اور تجربات نے اس خزانے کو خداوند تعالیٰ کی ایک امانت سمجھ کر لوگوں میں بانٹی رہتی ہوں کہ شاید میرے اللہ کی مخلوق اس خزانے کے چند ہی سکوں سے امیر ہو جائے اور اپنے ارد گرد رہنے والوں میں یہ زکوٰ ۃ بانٹتی رہوں اور انکی زندگی آسان ہوجائے۔ شاعر کے چار چراغوں کو میں نے اپنے رب کی طرف سے عطا کیے ہوئے چار ارکان نماز ، روزہ ، حج ،زکوۃ سے تشبیہ دی ہے اور پانچواں چراغ جو میں ان کے ساتھ جلانا چاہتی ہوں وہ ہے سوچ وفکر۔ سوچ و فکر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگا لیںکہ حضوررﷺ کی زندگی میں سوچ و فکر کی اتنی اہمیت تھی کی وہ اُن چار ارکان کی ادائیگی کے بعد غار حرا میں گھنٹوں دنوں اپنے آپ کو بند کر کے سوچ و فکر میں ڈوب جاتے تھے اور جب باہر نکلتے تھے تو انسانی معاملات سے وابستہ کوئی اہم ترین انکشاف ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر آجاتے تھے ، جسے باقاعدہ چھوا جاسکتا ہے ۔جوخدا اور انسان سے وابستہ سارے راز انکشاف کی صورت میں لوگوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور کوئی ان سے منکر نہیں ہوسکتا تھا، سوائے ان چند جاہلوں کے جواندر سے سب کچھ سمجھنے کے باوجود صرف اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے بظاہر ماننے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ یہ وہ جاہل لوگ تھے جو شق القمر کے معجزے پر بھی آنکھیں بند کر لیتے تھے تاکہ نہ وہ منظر انکے سامنے آئے اور نہ انہیں اقرار کر نا پڑے۔
ہمارے دین کے یہ چار ارکان انسان کی بھلائی اور بہتری کے جو خزانے سمیٹے ہوئے ہیںاگر انکی روایاتی وضاحت سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو انکے اندر وہ خزانہ ہے جو ہر دور میں سکہ رائج الوقت ہے۔آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس پہلے رکن کے ذریعے ہمیں جوکچھ بتایا گیاوہ آج سائنسدانوں نے بھی(شرمندگی کے ساتھ سہی) مان لیاہے۔ کرونا کے ایک چھوٹے سے حقیر ٹکڑے نے بصورت ڈنڈا سب کو سمجھا دیاہے کہ صفائی اور ستھرائی صر ف وضو کے ذریعے ہی برقرار رکھی جاسکتی ہے،اگر سارے لوگ و ضو کی اہمیت کو سمجھ لیتے تو آج پانچ بار کے وضو کی بجائے پچاس بار وضو نہ کرنا پڑتا۔ نماز میں جسم کی مختلف حر کات صحت کی ضمانت ہیں۔
کسی آدمی کے سر کے بال بہت تیزی سے جھڑرہے تھے، وہ ڈاکڑکے پاس گیاکہ بالوں کو گرنے سے روکنے کی کوئی دوائی بتائیں تواس نے بتایا کہ میڈیکل سائنس نے ابھی تک اس بیماری کی دوا نہیں بتائی البتہ میں آپ کو ایک ایکسر سائز بتاتاہوں یہ آزمودہ ہے ،اس سے نہ صرف یہ کہ آپ کے بال اگنا شروع ہوجائیں گے بلکہ آپ کی ذہنی صلاحیتیں بھی بہت بیدارہوجائینگی ،وہ علاج یہ ہے کہ آپ روزانہ دس پندرہ منٹ تک ایک دیوار کا سہارا لے کر سر کے بل کھڑے ہوجائیں، وہ شخص غیر مسلم تھا ،ڈاکٹر صاحب کو جلدی سے کہا کہ میرا روم میٹ ایک مسلمان ہے وہ دن میں پانچ مرتبہ اپنے دینی حکم کی وجہ سے سر کو زمین پر جھکاتا ہے۔ اسکے سارے بال صحیح سالم جمے ہوئے ہیں میں بھی واپس جاکر اس طرح کی ایکسر سائز کر لوں گا کیونکہ وہ آسان ہے اور اپنے آپ کو اُلٹا لٹکانا مشکل ہوگا۔نماز ایک مکمل صحت بخش عمل ہے اسکی ادائیگی کے بعد کسی اور ایکسر سائز کی ضرورت نہیں رہتی ۔ہائی جین کے جو صحت بخش اصول نماز نے ہم تک پہنچائے ہیں وہ کسی اور مذہب میں نہیں ۔
کرونا کے خوف نے اب طہارت اور پانی کے رابطے کو اپنا لیا ہے ۔کل ڈنمارک میں مجھے ایک دوست نے میسج بھیجا ہے ۔جو قارئین سے Shareکرنا بہت خوشگوار ہوگا ۔لکھا تھا موت کا خوف بھی کیا خوف ہے یہاں کے لوگوں نے بھی اب طہارت اور پانی کے رابطے کو تسلیم کرلیا ہے ،اب انہوں نے کھانے کی میز پر سجے پینے کے پانی کے جگ اپنے ٹائلٹس میں منتقل کردئیے ہیں ،کیونکہ یہاں نظریہ لوٹا موجود نہیں ہے ۔کرونا نے روزہ کے بھی سارے فوائد آشکارہ کردئیے ہیں۔پہلے غریب لوگ غربت کے بہانے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ پاتے تھے حالانکہ اللہ نے روزہ کے بارے میں واضح کہہ دیا تھا کہ یہ ایک صحت بخش عمل ہے اور اللہ کا مقصد کسی صورت انسان کو بھوک کی اذیت سے گذارنانہ تھا، اب لاک ڈائون نے جب غریبوں کو بیروزگاری سے کھانے پینے سے محروم کر دیا ہے تو وہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ اگر روزہ رکھنے کی عادت ہوتی تو فاقہ کشی آسانی سے برداشت ہوجاتی اور بعض افراد تو خیر روزے کو صرف ایک رسم سمجھتے تھے۔ (جاری)