سموگ میں شدت احتیاطی اقدامات کی ضرورت
لاہور ہائیکورٹ نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے لاہور میں سموگ کی بگڑتی صورتحال کے باعث اسکے تدارک کیلئے ہفتے میں دو دن ورک فرام ہوم لاگو کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے سموگ کے حوالے سے پنجاب حکومت کی کارکردگی رپورٹ پیش کی اور کہا کہ عدالتی حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے متعلقہ اداروں کو سموگ پر قابو پانے کے احکامات دئیے ہیں جبکہ شیخوپورہ کے علاقے میں ڈپٹی کمشنر نے فصلوں کو آگ لگانے پر متعدد افراد کو 40 لاکھ روپے کے جرمانے کئے گئے ہیں۔
ہر سال کی طرح رواں برس بھی پنجاب میں موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لئے ہیں ‘ بالخصوص صوبائی دارالحکومت لاہور میں گذشتہ کئی ہفتوں میں فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والے سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی جس نے لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر بنا دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور فصلوں کو جلانا سموگ کا باعث بنتا ہے۔حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق موسم سرما میں سموگ مزید شدت اختیار کرسکتی ہے جس سے سانس‘ پھیپھڑے اور آنکھیں متاثر ہوسکتی ہیں۔ گزشتہ ماہ میں لاہور شہر کی ائیر کوالٹی کئی مرتبہ 300 سے 500 کے درمیان رہ چکی ہے۔ موجودہ صورتحال ہر عمر کے شخص کی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے اس لئے گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال لازمی کیا جائے‘ بلاوجہ گھروں سے نکلنے سے گریز کیا جائے۔ سموگ کی خطرناک ہوتی صورتحال کے تناظر میں ہی لاہور ہائیکورٹ نے ہفتے میں دو دن ورک فرام ہوم کا عندیہ دیا ہے۔ سموگ کی افتاد ہر سال ٹوٹتی ہے‘ اس کا مستقل بنیادوں پر سدباب ہونا چاہیے۔عدالتی حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے متعلقہ اداروں کو سموگ پر قابو پانے کے احکامات دیئے ہیں ‘ ان پر فوری اور سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ فضائی آلودگی میںلاہور مسلسل دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے جو حکومت کیلئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔