بات کیسے ختم ہو؟؟؟؟
مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے نواز شریف کو فوری طور پر پاکستان نہ آنے اور حالات بہتر ہونے تک انتظار کا مشورہ دیا ہے، حالات بہتر ہونے کا انتظار کریں۔چوہدری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ عمران خان کو اس وقت امن کی ترغیب دینی چاہیے۔ وفاق اور پنجاب حکومت کو بھی کہوں گا تحمل سے کام لیں۔ پرویز الہٰی کی ذمہ داری ہے لیکن سب کو احساس ہونا چاہیے، بات آگے بڑھانے کے بجائے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چودھری صاحب ایک تجربہ کار اور صلح جو طبیعت کے مالک ہیں وہ ہمیشہ مشکل وقت میں تصادم کے بجائے اتحاد، اتفاق اور مذاکرات کا درس دیتے ہیں۔ موجودہ حالات میں سب سے اہم نکتہ بات ختم کرنے کا ہے۔ اگر بات بڑھائی جاتی ہے تو اس کا کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن ملک کو نقصان ضرور ہو گا۔ بدقسمتی سے سیاستدان بات ختم کرنے کے بجائے بات کو بڑھانے کی طرف لے جاتے ہیں اور پھر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ حالات کچھ ایسے ہیں کہ اگر ضد سے کام کیا گیا، نرمی نہ دکھائی گئی اور لچک کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھر ذمہ داری بھی ان لوگوں پر ہو گی جو اس وقت جلتی پر تیل پھینک رہے ہیں۔ جذبات میں شدت ہے چونکہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے اور وہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ان کے ووٹرز میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اس لیے ان حالات میں اگر قیادت اشتعال انگیز بیانات جاری کرتی ہے یا مبہم باتیں ہوتی ہیں یا پھر کسی کو نامناسب انداز میں ہدف بنایا جاتا ہے تو پھر حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے سیاسی قیادت کو بات کیسے ختم کرنی ہے کے فارمولے پر آگے بڑھنا چاہیے اور صرف ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ سب کے لیے لازم ہے کہ وہ امن کی ترغیب دیں۔ شاہ محمود قریشی نے ایف آئی آر درج نہ کیے جانے پر قانونی آپشنز کی بات تو کر دی ہے لیکن قانونی آپشنز دوسروں کے لیے بھی کھلے ہوں گے۔ ایف آئی آر مدعی کی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے یا قانون کے مطابق، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی بھی ایف آئی آر کے معاملے میں قانون کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان تمام معاملات میں بات کیسے ختم کرنی ہے وہ پہلو کہیں نظر نہیں آ رہا اور نہ ہی امن کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اگر کسی بھی جماعت کے کارکن توڑ پھوڑ کرتے ہیں، جلاؤ گھیراؤ ہوتا ہے، آگ لگائی جاتی ہے تو پھر یہ نقصان کسی فرد یا سیاسی جماعت تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا نقصان ملک کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کی واپسی کا سوال ہے چودھری صاحب کا یہ مشورہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان کی واپسی سے سیاسی درجہ حرارت میں شدت کا امکان ہے۔ میاں صاحب کی واپسی سے پہلے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لازمی ہے جب کہ اس وقت وہ حالات نظر نہیں آتے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے سیاسی درجہ حرارت معمول پر آئے اور اس کے بعد اس حوالے سے کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سیاستدان ایسا کر سکتے ہیں؟؟
"پاکستان آرمی نے عمران خان کے جھوٹے دعوؤں کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور فوج اور اس کے افسروں کو بدنام کرنے میں ملوث افسروں کے خلاف قانونی ایکشن کیلئے حکومت سے درخواست کر دی ہے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق ادارے یا اس کے سپاہیوں کی تذلیل کرنے والے کسی شخص کو کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ ادارے اور خاص طور پر آرمی کے ایک سینئر افسر کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے الزامات مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں، فوج انتہائی پیشہ ور اور منظم ادارہ ہونے پر فخر کرتی ہے، فوج میں احتساب کا ایک مؤثر اندرونی نظام ہے لیکن اگر ادارے کے سپاہیوں اور افسروں کی عزت، سلامتی اور وقار کو نشانہ بنایا جائے تو ادارہ اپنے افسروں اور جوانوں کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ ادارے اور افسروں پر جو بے بنیاد الزامات تھوپے گئے ان کی مذمت کی جاتی ہے۔"
عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے ان کے سپورٹرز میں غم و غصہ پایا جاتا ہے لیکن جس انداز میں دفاعی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ کسی طور مناسب نہیں ہے۔ افواجِ پاکستان نے عمران خان کے دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ اب یہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا فرض ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور مستقبل کی سیاست کے حوالے سے منصوبہ بندی کریں۔ دفاعی اداروں پر الزام تراشی یا اس قسم کے بیانات یقیناً بے چینی اور کشیدگی کا باعث ہیں۔ سیاست کرنے کا ایک طریقہ ہے اور عوامی جذبات کو اداروں کے خلاف بھڑکانے سے تعمیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ افواجِ پاکستان کے افسران اور سپاہی ملک اور قوم کے محافظ ہیں انہیں سیاسی اتار چڑھاؤ کا حصہ بنانا یا ملوث اور الزام تراشی مناسب عمل نہیں ہے۔ ریاستی اداروں کے خلاف اس طرح کی بیان بازی نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو اس طرز سیاست پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے وہاں آئیں، بیٹھیں، بات چیت کریں، مسائل کا حل تلاش کریں، برداشت سے کام لیں، عوام نے ووٹ ملک کو مضبوط کرنے اور مسائل حل کرنے کے لیے دئیے ہیں، ملک کو کمزور اور مسائل میں اضافے کے لیے مینڈیٹ نہیں ملا کرتے۔ اس لیے مناسب فورم پر جائیں، سیاسی رواداری اور سیاسی روایات کو آگے بڑھائیں۔ نہ حکومت کو تقسیم کی طرف بڑھنا چاہیے اور نہ ہی اپوزیشن کو تقسیم کی سیاست کو فروغ دینا چاہیے۔ امن اور اتحاد کی بات کریں۔ عمران خان احتجاج کرنا چاہتے ہیں ضرور کریں لیکن احتجاج میں ان شہریوں کا بھی خیال کریں جو کسی لانگ مارچ یا تحریک کا حصہ نہیں بن رہے۔ عام لوگوں کی زندگی کو متاثر ہونے سے بچانا بھی سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ اداروں کی بقا سے ہی ملک کی بقا ہے اور ہم کسی صورت اداروں پر حملہ برداشت نہیں کریں گے۔ 1947 سے لے کر اب تک ہم نے اداروں کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کیا ہے اور اب بھی کریں گے، ہم پاک فوج کی قربانیوں اور شہادتوں کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔ آصف علی زرداری نے اداروں کے حوالے سے درست مؤقف اختیار کیا ہے کیونکہ ادارے ہی حفاظت اور سلامتی کے ضامن ہیں ان کے کردار سیاسی اختلافات کی نذر کرنا دشمن کو خوش کرنے کے مترادف ہے۔ گذشتہ چند دن کے واقعات سے دشمن خوش ہے۔ ان حالات میں بات ختم کرنی ہے تو سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا۔