حاجی انعام الٰہی کاحجاز ہسپتال
یہ ستمبر کے پہلے ہفتے کی بات ہے کہ میری بیگم ( عابدہ اسلم ) صوفے سے اٹھ کر چلنے لگی تو یکدم چکر آیا اور وہ دائیں پہلو کی جانب زمین پر آگری ۔جسم کا سارا بوجھ دائیں بازو پر پڑا ۔اس کی زبان پر ایک ہی لفظ تھا کہ میرا بازو ٹوٹ گیا ۔ جب درد کی شدت کم نہ ہوئی تو ہم اپنے فیملی ڈاکٹر ذکااللہ گھمن کے پاس گئے ۔انہوں نے وقتی طور پر درد میں کمی کی دوائی تو دے دی اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ کسی ہڈی والے ڈاکٹر کو چیک کروانا بہت ضروری ہے ۔اب ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا کریں ۔ ہڈی والے ڈاکٹر تو تمام پرائیویٹ ہسپتالوں میں موجود ہیں لیکن ان کی فیس چار سے پانچ ہزار روپے سے کم نہیں ہوتی ۔اتنے پیسے ہم کہاں سے لائیں گئے ۔ بیٹے تو بمشکل گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں ۔
بہت سوچ بچار کے بعد ہمیں یاد آیا کہ لاہور میں ایک ہسپتال ایسا بھی ہے جہاں دو سو روپے کی پرچی کے بعد تمام سپیشلسٹ ڈاکٹر مریضوں کو خود چیک کرتے ہیں اور بیشتر ادویات بھی اسی ہسپتال سے ملتی ہیں ۔دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے اس ہسپتال کا نام حجاز ہسپتال ہے ۔ہم دونوں میاں بیوی حجاز ہسپتال جا پہنچے ۔راجہ افتخار صاحب جو ہسپتال کے ذمہ دار افسر ہیں جب بھی میں نے ان سے بات کی وہ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میری بیگم کو ہڈیوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹر کو چیک کروانا ہے، اس کا طریقہ کار کیا ہے ۔ وہ اپنی نشست سے اٹھے اور ہمیں ساتھ لیکر اس کمرے میں جا پہنچے جہاں ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر (جن کا نام ڈاکٹر آفاق ہے )بیٹھتے ہیں ۔ ڈاکٹر آفاق ابھی تشریف نہیں لائے تھے لیکن وہاں موجود وارڈ بوائے امیر بھٹی نے ہمیں یہ کہتے ہوئے بیٹھنے کی ہدایت کی کہ ڈاکٹر آفاق گیا رہ بجے تشریف لائیں گے آپ کو ان کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کمرے میںجو چھوٹے ڈاکٹر موجود تھے انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیونکہ بیگم کے دائیں بازو پر نہ صرف سوجن کافی تھی بلکہ کچھ گہرے نشان بھی ابھرے ہوئے تھے۔ اس لیے چھوٹے ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ چوٹ گوشت پر آئی ہے یا ہڈی پربھی کوئی مسئلہ ہوا ہے ۔ہم کمرے کے باہر کرسیوں پر بیٹھ کر ڈاکٹر آفاق کا انتظار کرنے لگے جو ٹھیک گیارہ بجے تشریف لے آئے ۔انہوں نے ایکسرا بھی دیکھا اور بیگم سے چند سوالات کیے اور نتیجہ یہ اخذ کیا کہ الحمد للہ ہڈی محفوظ ہے ۔جو بازو پر نشان ابھرے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں وہ اس میڈیسن کی وجہ سے ہیں جو مریضہ روٹین میں کھاتی ہیں ۔انہوں نے کچھ ادویات تجویز کردی ہیں اورایک ہفتے کے بعد دوبارہ چیک کرانے کی ہدایت کردی ۔200روپے کی پرچی بنوانے کے بعد ہمیں ادویات بھی حجاز ہسپتال سے ہی مل گئیں ۔ایک ہفتے کے بعد ہم پھر حجاز ہسپتال گئے اور ڈاکٹر آفاق صاحب نے بازو کو چیک کرکے ایکسرے کو دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ اللہ نے چاہا تو بازو بالکل ٹھیک ہو جائیگا اسکے ساتھ ہی انہوں نے فزیووتھراپی کرانے کا حکم دیا ۔ میں نے پوچھا یہ فزیوتھراپی کہاں سے کرانی پڑے گی ۔ وارڈ بوائے امیر بھٹی نے نہایت محبت سے بتایا کہ دوسری فلور پر یہ سہولت بھی موجود ہے چنانچہ سات دن مسلسل فیزو تھراپی کرانے کے بعد میری بیگم کا بازو پہلے کی طرح حرکت بھی کرنے لگا اور چھوٹی موٹی چیز اٹھانے کی صلاحیت بھی اس میں پیدا ہوگئی ۔یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کی غرض سے جاتے تو ہزاروں روپے کا بل بن چکا ہوتا جس کی ادائیگی ہمارے لیے ممکن ہی نہ تھی ۔
1968ء میں حاجی انعام الٰہی اثرنے جس ڈسپنسری کا آغاز کیا تھا ، وہی ڈسپنسری اب جدید ترین اور بہترین طبی سہولتوں سے آراستہ حجاز ہسپتال کے روپ میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ جہاں ہرشعبے کے سپیشلسٹ ڈاکٹر موجود ہیں جو صرف 200روپے کی پرچی پر ہر مریض کو نہ صرف خود چیک کرتے ہیں بلکہ بیشتر ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں ۔ یہاں جدید ترین لیبارٹریز ، الٹراساؤنڈ ،ڈیجیٹل ایکسرے کا انتظام بھی موجود ہے ۔حاجی انعام الہی اور حاجی عبدالوحید بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن ان کی وصال کے بعد ان کے جانثار ساتھیوں نے جناب سہیل اقبال کی قیادت میں ہسپتال کا انتظام و انصرام بہت خوب سنبھال رکھا ہے ۔