وطن کی نظریاتی بنیاد منہدم ہونے سے بچائیں
یہ ایک مسلمہ امر اور حقیقت ہے کہ زندہ اقوام اپنے ماضی اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی نہیںکرتیں بلکہ اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کیلئے اپنی تاریخ کی روشنی میں حال کو بھی عمدہ طریقے سے بسر کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے بحیثیت قوم نہ صرف اپنے ماضی کو یادرکھنا تو کجا اس سے نہ سیکھنے کا تہیہ کیاہواہے۔ کیا حکمران کیا عوام ہم سبھی اس ستم پر کاربندہیں۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی تشکیل دوقومی نظریہ کی اٹل اور واضح حقیقت کی بنیاد پر قائد اعظم اور ان کے رفقاء کی جہد مسلسل کا ثمرہے۔ لیکن ہم نے بتدریج اس نظریہ کی بنیاد کو منہدم کرنے کا جیسے ٹھیکہ لے لیاہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کو ہم نظریہ سے گمراہ کررہے ہیں۔
قائد اعظم نے 27نومبر 1948ء کو یہ واشگاف الفاظ میں فرمایاتھا کہ ’’ہماری تعلیم ہماری ثقافت اور تاریخ سے ہم آھنگ ہونی چاہیے‘‘۔ لیکن ارباب اختیار نے خاص طورپر سابق عمرانی حکومت نے دانستہ طورپر قائد کے فرمان کے برعکس دشمن پاکستان کے ایجنڈا پر گامزن ہونے کا راستہ اپنایا۔ پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں انٹر میڈیٹ اور ڈگری لیول کی تمام کلاسز میں مطالعہ پاکستان کو لازمی مضمون کی حیثیت سے کم وبیش گزشتہ چالیس برس سے پڑھایا جارہاہے۔ لیکن سابق حکومت نے صرف اپنے نادیدہ مقاصد کے تحت انٹر میڈیٹ کیلئے مطالعہ پاکستان کے مضمون میں سے وہ تمام حقائق ختم کروادئیے ہیں جن کا اجمالی جائزہ پیش خدمت ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف ، وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی جواپنے آپ کو مسلم لیگ ہی کا پر تو سمجھتے ہیں وہ بھی توجہ مبذول فرمائیں۔ پہلی کتاب کے کل دس ابواب تھے،جن کے اہم ابواب،اسلامی جمہوریہ پاکستان کاقیام، سرسید احمد خان کی علمی تحریک،مسلم لیگ کا قیام اغراض ومقاصد، تحریک خلافت،قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد، ابتدائی مشکلات، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت،مسئلہ کشمیر،دریا کی تنازعات، اسلامی جمہوریہ کیلئے آئینی اقدامات، پاکستان کا استماری ڈھانچہ،پاکستان کی ثقافت، قومی زبانیں، قومی یکجہتی،ملک کی معاشی منصوبہ بندی، پاکستان کی خارجہ پالیسی،دنیائے اسلام سے تعلقات۔
موجودہ کتاب تجرباتی ایڈیشن کے طورپر جولائی 2022ء میں پنجاب کیروکلم اور ٹیکسٹ بورڈ نے چھپوائی اور اسکے تحت تمام بورڈز کو امتحانات کیلئے ہدایات بھی جاری کردیں۔ صاف ظاہر ہے کہ کتاب کی تیاری گزشتہ عمرانی دورمیں ہوئی اور اسکی ترویج اس دور میں۔ نئی کتاب صرف چھ ابواب پر مبنی ہے اور اس میں سے تحریک قیام پاکستان کا اہم مواد ختم کردیاگیاہے بلکہ بڑے طریقے سے اسرائیل کی قدیم نام پوچھنے کی آڑ میں بیکار سوالات کا اہتمام کیاگیاہے۔ چھ ابواب میں، اسلام اور پاکستان، سیاسی وآئینی ارتقائ،انتظامی نظام، انسانی حقوق، پاکستان کا نظام تعلیم، کھیل اور سیرو سیاحت، ساتواں باب فرہنگ اور کتابیات، ا فسوس اس امر کاہے کہ آج اگر پاسبان نظریہ پاکستان مجید نظامی ہوتے تووہ یقینی طورپر اس گھناؤنی سازش کے کرداروں کو بے نقاب کرکے اور ہماری نوجوان نسل کو بعض مسخ شدہ باتوںکے قریب بھی نہ پھٹکنے دیتے۔
باب اول: اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام نظریہ پاکستان،قائد اعظم اور نظریہ پاکستان۔ نظریہ پاکستان کے بنیادی اصول، مسلم تحریک کا قیام پاکستان کا سبب بننا۔ سرسید احمد خان اور علی گڑھ کی علمی تحریک، آل انڈیا مسلم کا قیام،اغراض وقاصد اور قیام پاکستان میں کردار ، تحریک خلافت، قیام پاکستان کے محرکات، قرارداد پاکستان تک، کرپس مشن،شملہ کا نفرنس1945ئ، کیبنٹ مشن 1946ء ، تین جون 1947ء منصوبہ، مملکت کا قیام۔ باب دوم۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ابتدائی مشکلات، سرحدی تنازعات، آبی مسائل، مختلف ریاستوں پر بھارتی غاصبانہ قبضہ، مسئلہ کشمیر، معاشی مسائل خاص طور پر پاکستان کے اثاثہ جات کامسئلہ وغیرہ۔ باب سوم۔ اسلامی جمہورئیہ پاکستان کا جغرافیہ، علاقائی اہمیت، وغیرہ۔ باب چہارم۔ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے اقدام، قرارداد مقاصد ، پس منظر اہمیت1956ء 1962ء 1973ء کے دستاتیر کی اسلامی دفعات اور انکی اہمیت۔ باب پنجم ۔ پاکستان کا حکومتی ڈھانچہ، ایک اچھا نظام حکومت ، وفاقی وصوبائی حکومتوں کی تفصیل، مقامی حکومتیں وغیرہ، صنعتی نظام اور اسکے خدوخال۔ باب ششم۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ثقافت۔ باب ہفتم۔ پاکستانی زبانیں ، اردو کی ترویج وترقی، کشمیری، پشتو، سندھی، پنجابی، بلوچی زبان کے شعراء وغیرہ۔ باب ہشتم۔ قومی یکجہتی، خوشحالی، اہمیت وغیرہ۔ باب نہم۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معاشی منصوبہ بندی اور ترقی، مختلف معاشی منصوبے، معدنیات، اہم درآمدات برآمدات، معاشی عدم توازن، اسباب وغیرہ۔ باب دہم ۔ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ بنیادی اصول ، مقاصد، قومی سلامتی کے تحت مختلف ممالک سے تعلقات۔ اسلامی دنیا سے روابط۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات۔