شیڈول تیسری بار تبدیل ، لانگ مارچ جمعرات کو روٹ میں توسیع
اسلام آباد؍ لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے‘ نیوز رپورٹر‘ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے دوبارہ لانگ مارچ کا شیڈول تیسری مرتبہ تبدیل کر دیا۔ خیال رہے کہ ہفتہ کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ وزیر آباد سے دوبارہ لانگ مارچ کا آغاز ہو گا اور یہ لانگ مارچ منگل والے دن شروع ہو گا جس کی قیادت سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کریں گے۔ تاہم پیر کو سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا تھا کہ لانگ مارچ کی تاریخ دوبارہ تبدیل کر دی گئی۔ عمران خان سے ملاقات کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ لانگ مارچ کے دوران عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر ہمارے لیڈر کی شکایت پر درج کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ منگل، یا بدھ کے بجائے اب جمعرات کو ہو گا، یہ قافلہ وزیر آباد سے دو بجے شروع ہو گا۔ عمران خان نے ہمیں زمان پارک بلایا، مشاورت کیلئے۔ چیف جسٹس نے اس معاملے میں مداخلت کی اور 24 گھنٹے میں مقدمہ درج کرنے کا کہا ہے۔ عمران خان کا موقف واضح ہے۔ ہم نے اس پر مشاورت کی ہے۔ ہماری فوری توجہ ایف آئی آر پر ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے میری درخواست تھانے میں موجود ہے اور جو پبلک ہو چکی ہے۔ اسی درخواست کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ صحافیوں کی وفد سے ملاقات کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ لانگ مارچ کے شیڈول میں تبدیلی کردی گئی ہے، شاہ محمود قریشی وزیر آباد سے لانگ مارچ کی قیادت کریں گے جبکہ اسد عمر فیصل آباد سے قافلے کی قیادت کریں گے۔ فیصل آباد سے مارچ جھنگ، سرگودھا، میانوالی اور لیہ سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اور نوازشریف سے کبھی سمجھوتا نہیں ہو سکتا، پوری قوم اب تیار ہے، الیکشن کی تاریخ لیکر ہی واپس آئیں گے، میرا لانگ مارچ ہر صورت میں منزل حاصل کرے گا۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ سرحدوں پر کھڑے فوجی میرے بچوں کی طرح ہیں، آرمی چیف کی تقرری میرا ایشو نہیں، پاک فوج ہماری ہے اور اس کے خلاف جانا ممکن نہیں۔ زمان پارک میں عمران خان کی پارٹی رہنمائوں اور لیگل ٹیم کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں وزیر آباد واقعے کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا جائزہ لیا گیا۔ مشاورت میں سپریم کورٹ کی طرف سے مقدمے کے اندراج کیلئے پنجاب پولیس کو جاری ہدایات پر بھی غور کیا گیا۔ مقدمہ کے مدعی زبیر خان نیازی نے بتایا کہ تھانہ وزیر آباد میں وکلاء بیٹھے ہوئے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مجبور ہو کر پولیس کمپلینٹ سنٹر میں آن لائن درخواست جمع کروائی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم درخواست میں ملزم نامزد کر چکے ہیں، انکے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہئے۔ دریں اثناء عمران خان نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے ملک میں آئین و قانون کے انحراف کی راہ روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کے اہتمام پر بھی زور دیا۔ عمران خان نے کہا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا گیا ہے قوم میری حقیقی آزادی کی پکار پر کھڑی ہوچکی ہے۔ ہمیں جھوٹے الزامات، ہراسگی، بلاجواز گرفتاریوں حتیٰ کہ زیر حراست تشدد جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا ہے۔ وزیر داخلہ بار بار مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف، وزیرِداخلہ رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی کے ڈی جی میجر جنرل فیصل نصیر کی جانب سے میرے قتل کا منصوبہ میرے علم میں لایا گیا۔ گزشتہ ہفتے ہمارے حقیقی آزادی مارچ کے دوران اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی۔ اللہ رب العزت نے مجھے بچایا اور میرے قتل کی کوشش ناکام رہی۔ عمران خان نے کہا کہ بطور سربراہ ریاست اور دستور کے آرٹیکل 243(2) کے تحت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور پر آپ سے التماس ہے کہ قومی سلامتی سے جڑے ان معاملات کا فوری نوٹس لیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ پاک فوج ہماری ہے اور اس کے خلاف جانا ممکن نہیں۔ سرحدوں پر کھڑے فوجی میرے بچوں کی طرح ہیں، میرا لانگ مارچ ہر صورت منزل حاصل کرے گا۔ الیکشن کی تاریخ لے کر ہی واپس آئیں گے، قوم اب تیار بیٹھی ہے۔ لاہور میں صحافیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور نوازشریف سے کبھی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ایف آئی آر سے متعلق کہا کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیرآباد سے مارچ کی قیادت شاہ محمود قریشی کریں گے، اسد عمر فیصل آباد سے قافلے کی قیادت کریں گے۔ مارچ فیصل آباد سے جھنگ، سرگودھا، میانوالی، لیہ سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچے گا۔ دریں اثناء زمان پارک میں عمران خان کی پارٹی رہنمائوں اور لیگل ٹیم کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں وزیرآباد واقعے کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا جائزہ لیا گیا۔ دریں اثناء سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران مجھے تین گولیاں لگیں، حملہ کرنے والے دو تھے، شائد تین بھی ہو سکتے ہیں، حملے کے بعد معاملے پر کیوں پردہ ڈالا جا رہا ہے، کوئی آزادانہ تحقیقات کیوں نہیں ہو رہیں، آزاد اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے، ایجنسیاں اس کے ماتحت ہوں۔ ہمیں مقبولیت کے لیے کسی پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ میری دائیں ٹانگ میں 3 گولیاں لگیں، گولیاں لگنے سے ہڈیاں متاثر ہوئی ہیں، مجھے بالکل ٹھیک ہونے میں چار ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ میزبان نے سوال کیا کہ جن تین افراد پر آپ قتل کے الزامات لگا رہے ہیں ان کے خلاف کوئی ثبوت ہیں۔ اس سوال کے جواب میں پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ دو ماہ قبل میرے قتل کا منصوبہ بنایا گیا، میں 24 ستمبر کو عوام میں تھا، احتجاج کر رہا تھا، جب مجھے حکومت سے نکالا گیا تو سب سمجھنے لگے تھے کہ ہماری پارٹی ختم ہو جائے گی، میرے ملک میں 30 سال سے دو پارٹیاں حکومت کر رہی تھیں، میری حکومت کو ختم کرنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا میری پارٹی ختم ہو جائے گی تاہم اس دوران پی ٹی آئی کو وہ مقبولیت ملی جو ان دو پارٹیوں کے پاس نہیں تھی، اس دوران ضمنی الیکشن ہوئے تو میری جماعت نے 75 فیصد الیکشن جیتے، مجھے نا اہل کروانے کی پلاننگ ہوئی اس کے لیے ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا، میں بتانا چاہتا ہوں اگر لوگوں کو بیک گراؤنڈ نہیں پتہ ہو گا تو وہ کیسے سمجھیں گے کہ مجھ پر کیوں حملہ ہوا، مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھ پر حملہ کرنے والے دو افراد شامل تھے، ایک ملزم پکڑا گیا ہے اسکی فائرنگ کے بعد میں اور میرے دیگر ساتھی کنٹینر پر نیچے گر گئے، اسی وجہ سے ہم بچنے میں کامیاب ہو گئے، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے بھی اپیل کی ہے انکوائری کے لیے کمشن بنایا جائے، اگر میں غلط ہوں تو کمشن مجھے غلط ثابت کرے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مجھ پر حملہ پلاننگ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ دو ماہ پہلے بنایا تھا۔ میزبان کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آپ پر پیمرا نے پابندی لگا دی جس کو بعد میں وفاقی حکومت نے ختم کر دیا، اس پر جواب دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ارشد شریف پاکستان کا بہترین انویسٹی گیٹر صحافی تھے، جنہیں چند ہفتے قبل کینیا میں قتل کر دیا گیا، پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ تھا، اس خطرے کو بھانپتے ہوئے وہ دبئی کے راستے کینیا چلے گئے، اسی دوران میرے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی پر بدترین تشدد کیا گیا، دونوں نے ادارے کے سینئر افسر پر الزام لگایا، وہ ہم پر ہونے والے تشدد کے ذمے دار ہیں۔ ان چیزوں کو ہم سامنے لاتے ہیں جس کی بناء پر مجھ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، یہ کن بنیادوں پر مجھ پر پابندی لگا رہے ہیں، میں نے کون سی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔