• news

منفیت پسندی کا خاتمہ کیسے ؟


معجزے برپا کرنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم اس بار ہالینڈ کی معجزاتی جیت پر ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے،کچھ بھی ہو مبارک تو بنتی ہے، قومی ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی نے تمام الیکٹرانک اور انسانی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کردیا ہے، یہ پاکستانی ٹیم ہی ہے جو کبھی بھی کہیں بھی پہنچ سکتی ہے لیکن بہت سے ناشکروں کا کہنا ہے کہ جس طرح گرتے پڑتے ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی ہے اس سے کوئی بڑی امید نہ لگائیں، بابر اور رضوان کی آخری گروپ میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف کارکردگی سے لگتا ہے کہ ٹیم کا سیمی فائنل جیتنا مشکل ہے اور اگر یہاں بھی رل کھل کر دوسری بار معجزاتی طور پر فائنل میں پہنچ گئی تو وہاں ہار جائیگی کیونکہ انکے بقول اس ٹیم میں سرفراز ہی نہیں ہے،۔
اب ٹیم بارے کچھ باتیں ہوجائیں ، پہلے تو صرف بابر اعظم آئوٹ آف فارم تھا جس کی دیکھا دیکھی رضوان بھی اسی فیز میں چلا گیا، لیکن مجال ہے کوئی سیانا اوپر بیٹھا ہو جو انتظامی حکمت عملی اپناتے ہوئے کوئی تبدیلی کرتا، اوپننگ پارٹنر شپ نہیں چل رہی ہے تو کسی دوسرے کو عارضی موقع ہی دیے دیا جائے یا پھر بیٹرز کی ترتیب ہی بدل دی جاتی، بابر اعظم یا پھر رضوان کو ون ڈائون پوزیشن پر آزمایا جاتا، میں تو یہ ہی کہوں گا صورتحال کچھ بھی ہو یہ ہمارے ہیرو ہیں جنھیں صبح پھولوں کے ہار پہنا کر شام کو ان پر لعن طعن نہیں کی جاسکتی ،کچھ بھی ہو میں تو اس حق میں ہوں کہ ٹیم کی حوصلہ افزائی کی جائے اور خوشی چھوٹی بھی ہو اس کا جشن منایا جائے نہ کہ سوگ۔
اب تبصرہ ہوجائے سیاسی صورتحال بارے، پوری دنیا میں مقیم پاکستانی وطن کی سیاسی اور معاشی بگڑتی صورتحال پر دلگیر ہیں، انھیں گالی اور گولی طرز سیاست سے مکمل اختلاف اور شدید نفرت ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان پر حملے کے بعد سیاسی ماحول نہایت افسوسناک ہے، کچھ اسے جعلی حملہ قرار دے رہے ہیں، یہ حملہ جعلی ہو یا اصلی کسی صورت اس کو درست نہیں کہا جاسکتا ہے،اسکی آڑ میں کسی بھی طاقت کو من پسند عزائم پورے کرنیکی اجازت نہیں ہونی چاہیئے،اعظم سواتی پریس کانفرنس میں جس طرح اپنی ویڈیو کا بتا کر آبدیدہ ہوئے اس نے بہت سوں کو مایوس کیا، انکی ویڈیو نقلی ہو یا اصلی یہ عمل ہر صورت قابل نفرت ہے اور اس پر باعث عبرت سزا دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور سیاسی فضا پراگندہ ہوتی رہے گی، منفی طرز سیاست نے پاکستان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے، میں کسی جماعت کے حق یا مخالفت میں بات نہیں کررہا ،خدا کے مقدس گھر میں مریم اورنگزیب کو ہراساں کرکے جو عمل کرکے اسکی تشہیر کی گئی وہ بالکل بھی درست نہ تھا،مجھے یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ یہ سب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کیا گیا جہاں آواز بلند کرنا بھی منع ہے،۔
کاش ان منفی روایات کی بیخ کنی کی جاتی لیکن ایسا نہ ہونے کے باعث منفیت پسندی ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے،کوئی آزاد سوچ رکھنے والا فرد نارووال میں احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کا بھی دفاع نہیں کرسکتا بلکہ اس کی مذمت کریگا، آزادی اظہار رائے کے نام پر بداخلاقی کے مظاہروں پر شادیانے بجوانا بالکل بھی جمہوری نہیں ہے، سیاست کے ڈھیر پر نفرت کا تیل چھڑک کر دشمنی کی آگ کو بھڑکا کر کسی جمہوریت کی خدمت نہیں کی جارہی ، یہ تو مکمل سیاسی دہشتگردی ہے، آزادی اظہار رائے کے نام پر جلاؤ، گھیراؤ، لڑو مار دو کی گردان، تشدد پر اکسانے والی تقاریر میں ملک کا بھلا نہیں ہوگا۔
کلثوم نواز جب بستر مرگ پر زندگی و موت کی جنگ لڑی رہی تھیں تو انکی بیماری کو ڈرامہ قرار دیا گیا،
صد افسوس کہ غلیظ ترین افعال کرکے مخالفین کا منہ کالا کرنے کی روش ڈالدی گئی ہے،ایسا لگتا ہے کہ خود کو سچا اور ایماندار ثابت کرنے کیلئے 
 مرنا پڑے گا یا پھر گولیاں کھانی پڑیں گی
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن