• news

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی کی ضرورت


موسمیاتی تبدیلیاں کیا ہوتی ہیں اور ان کے اثرات کسی ملک کو کیسے متاثر کرتے ہیں، یہ شاید پاکستان سے بہتر کوئی بھی نہیں جانتا کیونکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو مذکورہ تبدیلیوں سے سب سے زیادہ تیزی سے متاثر ہورہے ہیں۔ کئی بین الاقوامی ادارے بار بار خبردار کرچکے ہیں کہ پاکستان آئندہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے مزید متاثر ہوگا جس کی وجہ سے اسے شدید سیلابی سلسلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالیہ سیلاب نے پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی بھی سیلاب نے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی نہیں مچائی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سیلاب کی وجہ سے سوا تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ اس وجہ سے جو جانی و مالی نقصان ہوا اس کا تخمینہ تو لگایا جاچکا ہے لیکن سیلاب زدہ علاقوں اور افراد کی بحالی کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ مختلف بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بار بار جاری کی جانے والی وارننگز کے باوجود حکومت پاکستان نے اب تک ایسی کوئی جامع پالیسی تشکیل نہیں دی جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں اور ان سے ہونے والے نقصانات پر قابو پانا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب میں حصہ بہت کم ہے لیکن ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں وہ کم حصہ بھی بہت زیادہ ہے۔ عالمی حدت پذیری یا گلوبل وارمنگ کے اثرات سے بچنے کے لیے دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنے شہریوں کی طرزِ زندگی میں ایسی تبدیلیاں لانے پر غور کررہے ہیں جن کی مدد سے عالمی حدت پذیری پر قابو پایا جاسکے لیکن پاکستان میں اس معاملے کو ابھی تک اس سنجیدگی سے نہیں دیکھا گیا جس کا یہ متقاضی ہے۔ اندریں حالات، ہمارے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت پذیری کے مسائل اور ان سے نمٹنے کے مختلف طریقوں پر غور کرنے کے لیے ہر سال عالمی سطح پر ایک اجتماع ہوتا ہے جسے کانفرنس آف دی پارٹیز یا کوپ کا نام دیا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی اس سلسلے کی ستائیسویں کانفرنس اس برس مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہورہی ہے۔ اس دو روزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف بھی ایک اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ مصر گئے ہیں۔ شرم الشیخ میں وزیراعظم کی مختلف ملکوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہورہی ہیں جن کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ مسائل پر بات چیت کرنا ہے۔ سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں شہباز شریف نے کہا کہ کوپ 27 کانفرنس کا مصر میں انعقاد موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت پذیری کے خلاف انسانیت کی جنگ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس وقت پاکستان اور افریقہ میں انتہائی موسمی واقعات نے موسمیاتی تبدیلی کی عالمگیریت کو ظاہر کیا ہے۔ اس کے مہلک اثرات پر آنکھیں بند کرنا مجرمانہ غفلت ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جی 77 کی صدارت کرتے ہوئے دنیا پر زور دیں گے کہ وہ کلائمیٹ فنانسنگ اور نقصانات کے ازالہ کے لیے فنڈ کے طور پر اپنے وعدہ کو پورا کرے۔ مالی مدد کے بغیر ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلی کے متعدد خطرات سے دوچار رہیں گے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کو حالیہ سیلاب کی وجہ سے جس بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کے لیے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کم اور ترقی یافتہ ممالک زیادہ ذمہ دار ہیں، لہٰذا یہ ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان اور اس جیسے ان دیگر ملکوں کے نقصانات کا ازالہ کریں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کے حالیہ دورے کے موقع پر دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان دوسرے ملکوں کی پیدا کردہ آلودگی سے براہِ راست متاثر ہورہا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرنا اکیلے پاکستان کے وسائل سے ممکن نہیں، دنیا کی ذمہ داری ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دے۔ بہت سے ممالک نے اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کی بھی اور امکان یہی دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے اس حوالے سے مزید امداد بھی ملے گی۔
پاکستان میں بیرونی امداد اور قرضے ہمیشہ ہی ایک اہم سیاسی موضوع رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونِ ممالک سے حاصل ہونے والی رقوم خواہ امداد کی شکل میں ہوں یا قرضے کی، ان کے بارے میں عوام کو کبھی پتا نہیں چلتا کہ کتنی رقم کہاں سے آئی اور کہاں خرچ ہوئی۔ یوں اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک جانب حکومت سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے بیرونِ ملک سے ملنے والی امداد کے تمام اعداد و شمار عوام کے سامنے رکھے اور اس رقم کو شفاف طریقے سے بحالی کے عمل پر خرچ کرے اور دوسری طرف تمام سٹیک ہولڈرز اور ماہرین کی مشاورت سے ایک ایسی جامع پالیسی بنائے جس کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں اور ان سے ہونے والے نقصانات پر قابو پایا جاسکے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں جتنی تاخیر کی جائے گی پاکستان کو اتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اقوام متحدہ سمیت تمام بڑے اور اہم ادارے خبردار کررہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں جو رخ اختیار کررہی ہے اس سے آنے والے برسوں میں ہمیں ایسے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھے۔ ان حالات میں حکومت کا ایک جامع پالیسی تشکیل دینا ایک ایسا فرض ہے جسے ہمیں ہر حال میں پورا کرنا ہی پڑے گا۔

ای پیپر-دی نیشن