سفر ِ لرزہ پُراندام
چالیس سال کے بعد سڈنی آنا محض ناسٹلجیا نہیں تھا۔ ایک تجسس اور کُھد بُد ضرور تھی۔ سڈنی کیسا ہو گا۔ کس قدر بدل چکا ہو گا۔ وہ لوگ کہاں ہونگے جن کے دم سے شعبہ ٹرانسپورٹ آباد تھا۔ میں نے اکثر Around the world سفر کیا ہے لیکن بوجوہ سڈنی نہ آ سکا۔ قریباً دس سال تو ناروے میں پاکستانیوں کو لیکچر دینے جاتا رہا۔ /14 اگست کا دن وہ لوگ بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
وہاں کئی تنظیمیں ہیں۔ اکثریت اہل گجرات کی ہے۔ تحصیل کھاریاں کا شاید ہی کوئی ایسا گھرانا ہو جس کا کوئی نہ کوئی فرد وہاں بزنس یا ملازمت نہ کرتا ہو۔ ایک دفعہ مرحوم احمد ندیم قاسمی صاحب نے ازراہ تفنن کہا تھا ، اس کا نام ناروے نہیں کھاروے ہونا چاہیے ۔ یہ واحد ملک ہے جہاں پر پاکستانیوں کی تعداد اہل ہند سے زیادہ ہے۔میں ایک مرتبہ چوہدری پرویز الٰہی کو لیکر آیا۔ اس وقت بھی وہ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ اگر فرق تھا تو صرف اتنا کہ اس وقت سب طبل و علم کے مالک و مختار تھے۔ اب شاید دریوزہ گر آتش بیگانہ ہیں!
میں نے ناروے ، سویڈن اور ڈنمارک پر ایک کتاب بھی لکھی۔ ’’سورج آدھی رات کا اسکی تقریب رونمائی الطاف ببلی صاحب نے دریمن میں کروائی۔ دریمن کا شمار بھی بڑے شہروں میں ہوتا ہے…دریمن سے آگے ایک مقام ’’وردن ایندے ‘‘ (End of the world) یہ دنیا بہت وسیع و عریض ہے۔ جب اس جگہ کا نام تجویز کیا گیا تو شاید اہل ناروے کی فکر محدود تھی۔ اوسلو، لندن ، نیویارک، لاس اینجلس ، ٹوکیو، منیلا، ہانگ کانگ، بنکاک اور لاہور یہ اس ملک میں بوجوہ نہ آسکا۔
اب کے سڈنی آنا میری مجبوری تھی۔ میری بیٹی اور داماد، آسٹریلین نیشنل ہیں۔ ایک عرصے سے وہاں مقیم ہیں۔ ان کا اصرار اس قدر بڑھا کہ میں انکار نہ کر سکا۔
میرا پہلا قیام دبئی میں تھا۔ دبئی میں میرے کئی احباب رہتے ہیں۔ ویسے بھی یہ شہر تاریخی پسِ منظر میں مجھے پسند ہے۔ موجودہ حکمران کے والد شیخ راشد المکتوم جب بہاولپور آتے تھے تو بطور کمشنر بہاولپور میں اُن کا استقبال کرتا۔ ان کے نمائندہ اشرف نوابی تھے جن کا تعلق میرے ضلع چکوال کے گائوں کھوتیاں سے تھا۔ سعید سہگل مرحوم کی بھی یہی جنم بُھومی تھی۔ سہگل جب ترقی کرتے ہوئے بتدریج انتہائے امارت پر پہنچے تو انہیں اپنا گائوں بتانے میں قدرے سُبکی محسوس ہونے لگی ۔
چنانچہ انتظامیہ کو کہہ کر اس کا نام بدل دیا۔ سہگل آباد گائوں کے معصوم گدھوں نے اپنی ’’تذلیل‘‘ کو کسی طور گوارہ کر لیا اور دھوبی کے اس گریجویٹ گدھے کی طرح پنڈت جواہر لعل نہرو کے حضور وہ عرضی نہ گزاری جس کا ذکر کرشن چندر نے اپنی تصنیف ’’گدھے کی سرگزشت‘‘ میں کیا ہے۔ ویسے بھی جہاں ’’کروڑوں گدھے‘‘ اپنے حقوق سے نابلد اور ناآشنا ہوں حکمرانوں کی باربرداری پر معمور ہوں وہاں دور دراز علاقے کے چند گدھوں کی شنوائی کیسے ہو سکتی تھی۔
ہمارے ہاں جب کسی کا تمسخر اڑانا ہو تو اسے ’’گدھا‘‘ کہتے ہیں۔ حالانکہ عربی زبان میں یہ تعریفی کلمہ شمار ہوتا ہے۔ تحمل، بردباری اور برداشت کا مظہر ہے۔ اموی حکمران مروان ثانی ایک بیدار مغز حکمران تھا۔ اسے ’’العمر‘‘ کہتے تھے۔ بدقسمتی سے عباسی کمانڈر عبداللہ ابن علی سے دریائے زب کے کنارے شکست کھا گیا۔
اشرف نوابی صاحب بڑے دلچسپ انسان ہیں۔ ان کا دبئی میں بہت بڑا مکان ہے۔ ان کے بیٹے کا شمار یورپ کے محدودے چند آرتھوپیڈک سرجنز میں ہوتا ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے ناشتے پر بلایا تو مشروبات ا ور ماکو لات میں میں چکوال کی جھلک نمایاں تھی۔ لسّی ، گندلوں کا ساگ اور مکھن مکئی، دیسی گھی میں تلے ہوئے پراٹھے۔
حکومت پاکستان نے عرب حکمرانوں میں شکار گاہیں تقسیم کر رکھی ہیں۔ رحیم یار خان میں ابوظہبی کے حکمران تلور کا شکار کرنے آتے ہیں۔ بہاولپور کا علاقہ دبئی کے حاکموں کو تفویض کیا گیا ہے۔ آجکل توشہ خانہ پر بحث ہو رہی ہے۔ وہ تحائف جو ہمارے حکمران سمیٹ لاتے ہیں اور پھر اُنہیں اونے پونے خرید لیتے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ یکطرفہ ٹریفک نہیں ہے۔ ہمیں بھی تحفے دینے پڑنے ہیں۔ وہ گھڑیاں اور ہار دیتے ہیں تو ہم پولیس کی ٹکسالی زبان میں راس بیل، مہار اونٹ، شاخ بکریاں اور عناڑ ، گھوڑے انکے حضور پیش کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ تو نوابی صاحب نے ڈی ۔ جی پروٹوکول کرنل ہمدانی کو باقاعدہ جھاڑ پلا دی تھی۔ بولے ’’کیا لاغر گائیں پیش کی ہیں۔ کم از کم اتنی تو موٹی تازی ہوں جو عزیز مصر کو خواب میں نظر آئی تھیں! اگر تعداد بھی اتنی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں! دبئی کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی صحرا ہے جو کبھی شتربانوں کا گہوارا تھا، جہاں پر چارسُو العطش العطش اور الجُو۔ الجُو کی صدائیں آتی تھیں …شاہنامہ کا خالق فردوسی اپنا بُغض اور تعصب نہ چھپا سکا۔ ’’وہ عرب جو اونٹنی کا دودھ پیا کرتے اور سوسمار کا گوشت کھاتے تھے۔
آج عجم جیسی عظیم سلطنت پر قابض ہو گئے ہیں۔ اے آسمان! یہ تیری گردش کا شاخسانہ ہے۔ کسی زمانے میں کنگ عبدالعزیز نے نواب بہاولپور سے رولز رائس مانگی تھی۔ آج اگر سعودی حکومت چاہے تو پورا کارخانہ خرید سکتی ہے۔ 1950ء کی دہائی میں صدر ایوب خان کو علم نہیں تھا کہ ابوظہبی کہاں ہے اور شیخ زید بن نیہان کہاں کاحکمران ہے ’’حضور اس چھوٹی سی ریاست میں تیل نکل آیا ہے‘‘ BCCi بینک کے سربراہ آغا حسن عابدی نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا۔
دبئی میں گرمی پڑتی نہیں بلکہ برستی ہے لیکن ائیرکنڈیشنڈ مکانوں، دکانوں، پلازوں ا ور کاروں کے اندر نہیں گھس سکتی۔ اونٹ کو کبھی ’’صحرائی جہاز‘‘ کہا جاتا تھا۔ عرب اس پر سوار ہو کر صحرا کی وسعتوں میں سفر کرتے۔ شدید پیاس کے عالم میں اس کے کوہان سے نکلا ہوا گدلا، بدبو دار پانی پیتے۔ آج ان کے اونٹ کوکا کولا پیتے ہیں اور ائیر کنڈیشنڈ ’’پک اپس‘‘ پر سفر کرتے ہیں…اس چھوٹی سی خلیجی ریاست نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ سنگاپور اور ہانگ کانگ اسے دیکھ کر نہ صرف حیران بلکہ لرزہ پراندام بھی ہے۔
؎لرزے ہے موج مے تیری رفتار دیکھ کر!
٭…٭…٭