• news

ریکوڈک ریفرنس،ایکٹ وفاقی قانون صوبائی حکومت تر میم کیسے کر سکتی ہے: سپریم کورٹ


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ریکوڈک کیس میں وفاقی حکومت  نے کہا ہے کہ ریکوڈک معاہدے میں شفافیت کیلئے اس مرتبہ حکومت نے تمام متعلقہ حکام پر مشتمل وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی سربراہی میں کمیٹیاں بنائی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ سے بھی ریکوڈک معاہدے کی منظوری لی ہے۔  صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس  کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے صدارتی ریفرنس کے سوالات پر دلائل  میں کہا ریفرنس میں سوال ہے کہ 2013ء کا فیصلہ بین الاقوامی کمپنی سے معاہدے کی راہ میں رکاوٹ تو نہیں، دوسرا سوال ہے کہ بین الاقوامی معاہدے کے لیے معدنیات ایکٹ 1948ء میں ترامیم آئین سے متصادم ہیں یا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا معدنیات ایکٹ وفاقی قانون ہے۔ اس کی ترمیم صوبائی حکومت کیسے کر سکتی ہے؟۔ صوبے وفاقی قوانین میں رد و بدل نہیں کر سکتے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ کے2013ء کے فیصلے کے مطابق بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی بین الاقوامی معاہدے کرنے کی مجاز اتھارٹی نہیں، پچھلے ریکوڈک معاہدے میں مستعدی سے کام نا لینے پر کالعدم ہوا تھا، پچھلے ریکوڈک معاہدے کی متعلقہ ماہرین اور حکام سے سکروٹنی نہیں کرائی گئی تھی، عدالتی فیصلے کے مطابق پچھلے ریکوڈک معاہدے شفاف طریقہ کار کے تحت نہیں ہوا تھا اور کہا گیا تھا کہ پچھلے ریکوڈک معاہدے میں غیر قانونی طور پر رولز میں نرمی کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا دستاویزات کے مطابق پاکستان پر جرمانہ ادا نا کرنے پر روزانہ ساڑھے سات لاکھ ڈالر سود کا بوجھ پڑے گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا بیرک گولڈ کمپنی کو 47 میں سے پہلے 15 سال ٹیکس چھوٹ دی جائے گی۔ کچھ بھی ہو پاکستان کو ریکوڈک معاہدے سے50 فیصد منافع ملے گا۔

ای پیپر-دی نیشن