• news

جمعرات  ،14  ربیع الثانی ھ، 1444، 10 نومبر 2022ء 


اقبال ڈے کی سرکاری چھٹی بحال کر دی گئی 
حکومت کی طرف سے اقبال ڈے پر چٹھی کی بحالی ایک خوش آئند عمل ہے۔ مفکر پاکستان کے یوم ولادت پر یہ چھٹی ایک ایسی حکومت کے دور میں ختم کی گئی تھی جو خود کو پاکستان کی وارث مسلم لیگ قرار دیتی ہے اور انہوں نے ہی یہ چھٹی ختم کی۔ اب موجودہ حکومت بھی اسی جماعت کی ہے جو مسلم لیگ کہلاتی ہے۔ اس نے عوامی مطالبے پر دوبارہ یہ چھٹی بحال کر کے محبان اقبال کی دعائیں لی ہیں۔ جب تک یہ چھٹی منسوخ رہی ، سیاسی سماجی اور علمی حلقوں کی طرف سے بارہا شد و مد سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت یہ چھٹی بحال کرے مگر افسوس اقبال کے شاہینوں اور شیروں نے اس طرف سے آنکھیں بند رکھیں۔ خود خانوادہ اقبال کی طرف سے اس چھٹی کے ختم ہونے پر اظہار تاسف کیا جاتا رہا۔ اب جب یہ چھٹی بحال ہوئی ہے تو جہاں عوام خوش ہیں ، خاص طور پر سرکاری ملازمین اور سکول ، کالج ، یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی تو خوشی دیدنی ہے۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے اس چھٹی کی بحالی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ چھٹی عوام کو اقبال کے خیالات سے محروم رکھنے کے لیے کی گئی ہے کیونکہ جن تقریبات میں اس حوالے سے انہیں مدعو کیا گیا تھا ان سرکاری اداروں میں تعطیل کی وجہ سے اب تقریبات ملتوی کر دی گئی ہیں۔ اس پہلو پر ہی غور کرنے کی وجہ سے شاید پہلے یہ چھٹی ختم کی گئی تھی۔ مگر اس پر بھی محبان اقبال جُز بُز تھے۔ اب چھٹی بحال ہو گئی ہے تو بھی کچھ لوگ خوش نہیں۔ اقبال وہ عظیم مفکر ہیں جن کی یاد منانے کے لیے سارے دن کم ہیں۔ یہ چھٹی ان کی ولادت کی خوشی میں، دنیا میں آنے کی خوشی میں دی گئی ہے۔ اقبال کا یوم وفات ہو یا یوم پیدائش ہم جو دن بھی منائیں وہ اقبال کی قومی اور ملی خدمات اجاگر کرنے کیلئے مخصوص ہونا چاہیے۔ فی الحال عوام کو اقبال ڈے کی چھٹی کی بحالی مبارک ہو۔ 
٭٭٭٭٭
امریکہ میں جمہوریت خطرے میں ہے صدر جوبائیڈن 
اب پاکستان کے بعد لگتا ہے امریکہ میں بھی جمہوریت رانی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ خدا جانے اسے یہ خطرہ کس طرف سے ہے۔ وہاں فوج یا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اس بلورانی کے لیے خطرناک ثابت ہو مگر خود امریکی صدر جوبائیڈن جب گلی گلی شہر شہر جا کر ایوان نمائندگان کی الیکشن مہم میں دہائی دیتے پھریں گے کہ امریکہ میں جمہوریت خطرے میں ہے تو اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ ورنہ امریکہ کا یہ ضعیف العمر پریشان دکھائی دینے والا صدر ویسے تو دہائی نہیں دیتا پھرتا ۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ خود دنیا میں امریکہ کی وجہ سے ہر جگہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ غضب کی بات یہ ہے کہ سابق صدر ٹرمپ کی حکومت رخصت ہونے کے بعد جس طرح انہوں نے ایوان جمہوریت یعنی وائٹ ہائوس پر جو جمہوریت کا گھر ہے وہاں اپنے حامیوں کو حملے کی اجازت دی وہ مناظر سب نے دیکھے ہیں کہ کس طرح ایک جمہوری ملک کے مہذب شہری ڈنڈے اٹھائے پتھرائو کرتے جمہوریت محل میں داخل ہوئے اور وہاں جا کر خوب لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی۔ یہ تو امریکی جمہوری نظام کی پائیداری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کے دائرے میں رہے کوئی اور نیم جمہوری ملک ہوتا تو ان مظاہرین کی وہ درگت بنتی کہ مہینوں یہ بستر سے نہ اٹھ سکتے۔ جس جمہوریت نے ان شرپسندوں کو تحفظ دیا آج جوبائیڈن صاحب فرماتے ہیں کہ وہ خطرے میں ہے۔ شاید اس لیے کہ آج وہ بھی انوکھے لاڈے کی طرف سے چاند سے کھیلنے کی ضد دیکھ کر پریشان ہیں جو فل نہ سہی نیم پاگل ضرور ہو رہے ہیں حکومت کھو جانے کے غم میں۔ بہرحال صدر جوبائیڈن دل چھوٹا نہ کریں۔ امریکہ میں مضبوط جمہوری نظام کی بدولت دور دور تک جمہوریت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا۔ ہاں اگر انہیں ایوان نمائندگان کے الیکشن میں ٹرمپ کی کامیابی کے خوف میں ایسا لگ رہا ہے تو یہ الگ بات ہے۔ 
٭٭٭٭٭
اعظم سواتی کے معاملے پر پارٹی قیادت ناخوش‘ مصطفی نواز کھوکھر بطور سینیٹر مستعفی
یہ تو سیاست کی نیرنگی ہے۔ مصطفی  نواز کھوکھر جو پیپلزپارٹی کے اہم رہنما کے بیٹے ہیں خود ہی پارٹی نے انہیں سینیٹر بنوایا۔ اب اگر انکے  اختلافی بیان کی وجہ سے پارٹی  قیادت ان سے ناراض ہے۔ بقول راوی ان سے استعفیٰ طلب کیا ہے تو انہوں نے  نہایت خندہ  روئی سے سینیٹ سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ معلوم نہیں پارٹی رکنیت بھی چھوڑی ہے یا نہیں‘ اختلاف رائے کا حق سب کوہے۔ اس پر مصطفی  کھوکھر پہلے بھی ایک آدھ  بار پارٹی کے مؤقف کے برعکس بیان دے چکے ہیں، امید ہے پارٹی ان کی رکنیت برقرار رکھے گی۔ وہ ایک نڈر سیاسی رہنما رہے ہیں۔  اگر اختلاف رائے رکھنا جرم ہے تو پھر اعتزاز احسن کے بارے میں پارٹی کی نرم روئی نرم خوئی کا کیا مطلب ہے۔ جو کھلم کھلا کئی بار پارٹی پالیسی کے خلاف بیان بھی دیتے رہے اور عمران خان سے اپنی  پوشیدہ محبت بھی جتاتے رہے۔ ان کو سات خون کیوں معاف ہیں۔ پیپلزپارٹی نے انکی طرف سے آنکھیں کیوں بند کئے رکھی ہیں۔ عمران خان کے زخمی ہونے کے بعد تو اعتزاز احسن کی چھپی محبت ابل ابل کر سامنے آرہی ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے عمران خان سے ملاقات بھی کی ہے جوہمیشہ زرداری کو بڑی بیماری اور بڑا ڈاکو کہتے رہے ہیں۔ کیا پیپلزپارٹی والے یہ ملاقات بھی ٹھنڈے پیٹوں ہضم کریں گے۔  ادھر عمران خان بھی اعتزاز احسن کی محبت میں ابھی تک مبتلا ان کی تحریک انصاف میں آنے کی راہ تک رہے ہیں۔ انہوں نے کھل کر کہا ہے کہ وہ 17 سال سے اعتزاز احسن کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی کہا  کہ اعتزاز ہمارے ساتھ زیادہ بہتر رہیںگے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔کب اعتزاز احسن اور عمران خان من تو شدم تو من شدی کی تصویر بنتے ہیں اور زرداری اور بلاول منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
مال روڈ پر بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل چلانا ممنوع 
انتظامیہ برا نہ منائے تو عرض کریں کہ ایسے بے شمار بیانات‘ اعلانات گزشتہ کئی برسوں سے سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں مگر عمل ہوتا کہیں بھی اور کبھی بھی نظر نہیں آیا۔ مال روڈ پر جلسے جلوس پر عدالتی حکم کے تحت بند ممنوع ہیں مگر کون سنتا ہے۔ کسی نے کبھی عمل کیا۔ آئے روز مال روڈ بند ہوتی ہے۔ وجہ وہی جلسے جلوس اور دھرنے‘ لوگوں نے تو تنگ آکر مال روڈ پر سفر چھوڑ دیا ہے۔ وہ اب لمبا راستہ طے کرکے منزل مقصود کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ ویسے بھی مال روڈ کی تمام سروس لین ناجائز پارکنگ اور تجاوزات کی وجہ سے بند ہی رہتی ہیں۔ اس کا بھی کوئی علاج تلاش کیا جائے۔ اب ٹریفک پولیس کی طرف سے مال روڈ پر بنا ہیلمٹ کے موٹرسائیکل چلانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ ایسا ہو سکے گا تو ایسا ہونا ناممکن ہے۔ لاہوریوں نے ہمیشہ قانون پر نہ چلنے کی قسم کھائی ہے۔ پورے لاہور میں ہیلمٹ کے بغیر موٹرسائیکل چلانے کی اجازت نہیں مگر کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں‘ خود ٹریفک پولیس ہی ایسے لوگوں کو کچھ نہیں کہتی تو کسی اور سے کیا گلہ کرے کوئی۔ صرف مال روڈ نہیں‘ لاہور کی ہر سڑک اہم ہے۔ اس لئے اب قانون کا اطلاق سب پر ہونا چاہئے۔ بھاری جرمانے کا حشر بھی دیکھ لیں کتنے شہری اشاروں کی‘ ون وے کی پابندی کرتے ہیں۔ بہت کم ایسے ہیں جو پابندی کرتے ہیں اور اپنا جی جلاتے ہیں۔ طریق کار وہی رکھنا ہوگا جو باقی دنیا میں ہے، پہلی بار جرمانہ‘ دوسری بار لائسنس منسوخ‘ تیسری بار گاڑی ہی بند کر دیں پھر دیکھیں کیسے سب سیدھا ہوتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن