پنجاب میں گورنر راج کا آپشن ؟
ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں حالات عمومی طور پر قابلِ رشک نہیں ہیں۔ ایک طرف سیاسی طور پر عدم استحکام ہے تو دوسری طرف امن و امان کی صورتِ حال بھی دگرگوں۔ گزشتہ دنوں پاکستان تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کے دوران پارٹی کے چیئرمین اور ان کے ساتھیوں پر ہونے والے قاتلانہ حملہ نے اہلِ سیاست میں بھی سراسمیگی پیدا کر دی۔ اس واقعہ کے فوری بعد جس طرح پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے ، ہنگامے اور گھیرائو جلائو کا راستہ اختیار کیا گیا اس سے انتظامی حالات متاثر ہوئے ۔بپھرے ہجوم نے گورنر ہاوس پر بھی دھاوا بول دیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی ۔جس سے امن و امان کو خطرات لاحق ہو گئے ۔سیاسی اجتماعات میں اس نوع کے واقعات سیاسی عمل کو ہی نقصان پہنچانے کا باعث نہیں بنتے بلکہ عمومی عوامی مزاج پر بھی منفی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اب ان حالات کے تناظر میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کا یہ کہنا کہ ’’انتشار بڑھنے پر پنجاب میں گورنر راج کا آپشن موجود ہے‘‘ جو سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان میں تاجر و صنعت کاروں سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت کے دوران گورنر پنجاب نے کہا کہ پنجاب حکومت سے گورنر ہائوس پر حملے کی تحریری شکایت بھی کر دی ہے۔ حکومت کی آئینی مدت /18 اگست 2023ء کو پوری ہو گی اور الیکشن وقتِ مقررہ پر ہی ہوں گے۔ گورنر پنجاب کا پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کے بارے میں کہنا اگرچہ حکومتِ پنجاب کے لیے ایک انتباہی پیغام ہے لیکن بنظرِ غائر اس امر کا جائزہ لیا جائے تو صوبہ پنجاب کے اس وقت کے حالات یہاں پر گورنر راج والا آخری آپشن استعمال کرنے کے متقاضی نہیں۔ آئینِ پاکستان میں واضح طور پر درج ہے کہ کن حالات کے پیش نظر کسی صوبے میں گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ محض سیاسی ضرورت کے تحت گورنر راج نافذ کرنے سے انتشار مزید بڑھے گا جبکہ ملک پہلے ہی گوناگوں مسائل سے دوچار ہے ۔سو بہتر ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت جیسی بھی ہے، اسے چلنے دیا جائے اور سسٹم کو ڈی ٹریک کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ البتہ اگر حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ گورنر راج کا نفاذ آئینی تقاضا بن جائے تو پھر اس آپشن کو استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔