گیس و بجلی کمپنیوں کی من مانیاں
سوئی گیس کمپنیوں نے گیس کی قیمتوں میں 237 فیصد تک اضافے کی درخواست اوگرا میں جمع کرا دی۔ اوگرا کے مطابق گیس کی قیمت میں اضافہ رواں مالی سال یکم جولائی سے مانگا گیا ہے۔ اسی طرح فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 8 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی ہے جبکہ کے الیکٹرک صارفین کیلئے 51 پیسے اضافہ کیا گیا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ملک بھر میں نہ گیس ہے نہ بجلی میسر ہے جبکہ انکے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کرکے عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی صارفین بھاری بلوں کی ادائیگی سے بچنے کیلئے غیرقانونی راستے اختیار کرنے پر مجبورہوتے ہیں۔ گیس اور بجلی پہلے ہی ملک میں ناپید ہے۔ گھریلو خواتین الگ ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ بعض علاقوں میں بچے اور کام پر جانیوالے بغیر ناشتے سکول اور دفتر جانے پر مجبور ہیں۔ اب موسم سرما شروع ہو چکا ہے‘ گیس کی لوڈشیڈنگ میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔ یہی حال بجلی کا ہے۔ گزشتہ روز گیس کے نرخوں میں 237 فیصد کی درخواست دی گئی ہے جبکہ بجلی میں بھی 8 پیسے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا جو عوام کا کڑا امتحان لینے کے مترادف ہے۔ چند ہفتے قبل لاہور ہائیکورٹ نے بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج منہا کرکے بل کی بقیہ رقم جمع کرانے کا حکم صادر کیا تھا‘ اس حکم پر بلوں سے فیول پرائس نکالنے کا کام شروع کردیا گیا تھا جس پر عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ بعدازاں مہنا کی گئی رقم نئے بلوں میں شامل کرکے صارفین سے وصول کرلی گئی۔ عوام پہلے ہی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو چکے ہیں‘ ہر چیز انکی دسترس سے باہر ہو چکی ہے۔ اگر گیس و بجلی کمپنیوں کی من مانیاں اسی طرح جاری رہیں تو عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حکومت کیخلاف سراپا احتجاج ہو کر اپنے شدید ردعمل کا آئندہ انتخابات میں حکومتی امیدواروں کو مسترد کرکے اظہار کر سکتے ہیں۔ عوام کو درپیش اصل مسئلہ مہنگائی ہی ہے‘ جس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔