پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں احتجاج کیلئے توجہ مرکوز کرنا خالی ازعلت نہیں
انتخابات کی تاریخ پر دونوں طرف سے لچک دکھائی جائے تو درمیانی راستہ نکل آئے گا۔ حکومت بھی لچک دکھائے اور پی ٹی آئی کو بھی احتجاج ختم کر دینا چاہیے۔ بات چیت سے مسئلہ حل ہو گا اور سیاسی تنازع بھی ختم ہو گا،
قومی افق
چوہدری شاہدا جمل
chohdary2005@gmail.com
ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری کشیدگی سے باہمی سیاسی رابطوں میں تعطل پیدا ہو چکا ہے۔ عمران خان کے الزامات کے رویے نے ملک کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سیاسی تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ احتجاج کے دوران تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کو جا نے والے راستوں کو بند بھی رکھا گیا،موٹر وے پر بھی احتجاج کے باعث ٹریفک متاثر ہوئی اب اب عمران خان نے تمام شہروں سے احتجاج ختم کر کے اسے اسلام آباد کی حد تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جس سے وفاقی حکومت کو تو شائد کو ئی فرق نہیں پڑتا لیکن عام لوگ راستے بند ہو نے سے شدید متاثرہوتے رہے اس دوران تعلیمی اداروں کو جا نے والے بچے اور ملازمت پیشہ افرادمشکلات سے دوچار رہے ہیں۔
2014کے کنٹینر اور دھرنے کی سیاست نے جماعتوں کے مابین تعلقات میں فاصلوں کو بڑھاوا دیاہے۔عمران خان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے بالکل بھی بات نہیں کریں گے حالانکہ دوسری سیاسی جماعتیں بارہا بات چیت جاری رکھنے کی بات کررہی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے مثبت جواب سامنے نہ آنے سے مذاکرات کے ذریعے سیاسی طریقے سے معاملات حل کر نے کا ماحول پیدا نہیں ہو پا رہا۔
سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ گفتگو کے ذریعے ممکن ہے مگر عمران خان کا گمان ہے کہ صرف تصادم اور دباؤ سے یہ راستہ نکالا جا سکتا ہے۔عمران خان کا سارا زور نئے انتخابات کے فوری انعقاد پر ہے جبکہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں وقتِ مقررہ پر انتخابات کا اعلان کر چکی ہیں۔عمران خان نی اس وقت کئی اداروں کے سربراہان سے استعفوں کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے ، پی ٹی آئی کے رہنماچیف الیکشن کمشنر،وزیر اعظم شہباز شریف ،وزیر داخلہ رانا ثنا ئ اللہ،آئی جی پو لیس پنجاب،چئیرمین سینیٹ،عسکری اداروں کے عہدیداران سمیت کئی استعفوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس وقت جو حالات ہیں، اگر مزید دوچار ماہ برقرار رہے تو غیر یقینی صورت حال میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور سیاسی بحران بھی شدت اختیار کر جائے گا۔ اس وقت سیاسی رسہ کشی کے تین کونے ہیں۔ یعنی حکومت، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ۔ تینوں فریقین کو ماننا پڑے گا کہ ان سے غلطیاں ہوئی ہیں اور اِن غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ نیا آرمی چیف جو بھی ہو، اس کو ادارہ مقدم ہو گا۔
پی ٹی آئی کی بے یقینی پر مبنی سیاست کی وجہ سے حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں بھی کسی قسم کی لچک دکھا نے کے موڈ میں نظر نہیں آتیں۔ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے حقیقی آزادی لانگ مارچ کا دوبارہ آغاز اس وقت الجھن کا شکار ہوگیا جب پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے 8نومبر کے اعلان کردہ شیڈول پر 2 بار نظر ثانی کی گئی۔پہلے پارٹی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ مارچ 9نومبر کو دوبارہ شروع ہوگا اور بعد میں سینیٹر فیصل جاوید خان نے ٹوئٹ کیا کہ لانگ مارچ کے آغاز کی نئی تاریخ 10نومبر ہے، یہی اعلان پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ سے بھی کیا گیا۔قبل ازیں پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی نے ایک نیوز کانفرنس میں اعلان کیا کہ لانگ مارچ 8نومبر کو دوپہر ایک بجے وزیر آباد سے دوبارہ شروع ہو گا جہاں گزشتہ ہفتے عمران خان پر حملے کا واقعہ پیش آیا تھا۔
اب عمران خان نے تمام شہروں سے احتجاج ختم کر کے اسے جب اسلام آباد میں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اس کے آئندہ دنوں میں اثرات واضح ہو جائیں گے۔ پھر بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج، لانگ مارچ کے شیڈول میں بار بار تبدیلی اور ایک کے بعد دوسرے اعلان کی وجہ سے مقامی تاجروں کو کاروبار میں شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کے سامان کی ڈیلیوری تعطل کا شکار ہے۔ تاجروں کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ملک میں پھلوں، سبزیوں اور خام مال جیسی اشیا کی سپلائی میں پہلے ہی تاخیر کا سامنا ہے جبکہ پی ٹی آئی دھرنوں کی وجہ سے ملک کے پہلے سے غیر مستحکم معاشی حالات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ احتجاج کے باعث ٹرک اور دیگر ٹرانسپورٹ کو روک دیا گیا اور سڑکوں پر رکاوٹیں لگا کر بند کردیا گیا ہے۔ سڑکوں کی طویل ناکہ بندی کی وجہ سے پھلوں اور سبزیوں کی سپلائی میں تاخیر منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، دیہاڑی دار طبقہ ایسے حالات میں کیسے گزارا کرسکتا ہے؟۔لانگ مارچ کے دوبارہ اعلان کے بعد تاجر برادری تشویش میں مبتلا ہے۔
اس دوران جب رواں ہفتے کے آخر میں سعودی عرب کی خصوصی سیکیورٹی ٹیم ولی عہد محمد بن سلمان کے دورے کے حوالے سے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے پاکستان آ رہی ہے ، پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں احتجاج کیلئے توجہ مرکوز کرنا خالی از علت نہیں ہو سکتا ۔ ہماری سیاسی قیادت کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ ملک میں اقتصادی بحالی کے سلسلے میں ماحول سازگار رہے اور اس پیش رفت میں کوئی رخنہ نہ آنے پائے۔
سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کے رواں ماہ دورہ پاکستان میں 4.2ارب ڈالر کے معاہدے اور ایم او یوز ہونے کی توقع ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان دونوں ممالک کے درمیان اربوں ڈالر مالیت کے معاہدے ہونے کی توقع ہے۔ سرمایہ کاری کے معاہدوں اور ایم او یوز کو حتمی شکل دینے کے لیے سعودی ولی عہد کے دورے کی تیاریاں اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں و ایم او یوز کے مسودوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ نوشہرہ سے نئے موٹر وے پراجیکٹ کیلئے بھی سرمایہ کاری کا معاہدہ متوقع ہے، اس منصوبے پر پچاس لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔ ترلائی اسلام آباد میں 500ملین ڈالر سے زائد مالیت کے کنگ سلمان ہسپتال کی تعمیر کے منصوبے کے معاہدے پر بھی دستخط متوقع ہیں۔آزاد جموں و کشمیر میں 500ملین ڈالر کے دو ہائیڈور پاور پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی متوقع ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں کراچی تا اٹک وائٹ آئل پائپ لائن منصوبے میں غیر ملکی کرنسی میں سرمایہ کاری کرے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف مصر کے شہر شرم الشیخ میں کوپ -27سمٹ میں شرکت کی ہے اس موقع پر انہوں نے عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں،شہباز شریف نے سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم سے ملاقات کی جس میں دونوں برادر ممالک کے درمیان کثیر الجہتی شراکت داری کو مزید تقویت دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔دونوں رہنماؤں نے مختلف شعبوں میں جاری تعاون کو مزید بڑھانے کے پیش نظر دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے اس امر کا اعادہ کیا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے برادرانہ روابط کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے جن کی جڑیں مشترکہ عقیدے ثقافت و اقدار اور باہمی حمایت کی لازوال روایت میں گہری ہیں۔ریاض میں اپنی حالیہ ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم اور ولی عہد نے بڑھتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط اور کثیر الجہتی شراکت داری کو مزید تقویت دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ولی عہد کے پاکستان کے آئندہ دورے کے منتظر وزیراعظم نے کہا کہ انہیں اعتماد ہے کہ یہ دورہ باہمی دلچسپی کے تمام شعبہ جات میں دوطرفہ تعاون کو مزید گہرا کرنے میں معاون ہو گا۔