وفاقی حکومت کا سودکے خلاف اپیلیں واپس لینے کا صائب فیصلہ
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے سود سے متعلق فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر حکومتی اپیلیں واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے میڈیا کو بریفنگ میں کہا کہ ملک میں اسلامی بنکنگ کے نظام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ تیزی سے اسے نافذ کریں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے گزشتہ دنوں سودی نظام کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ قرآن و سنت کا بھی یہی حکم ہے۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت کی طرف سے نیشنل بنک اور سٹیٹ بنک نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں جنہیں وزیراعظم شہبازشریف کی منظوری سے واپس لے لیں گے۔ انہوں نے کہا، حکومت پوری کوشش کرے گی کہ ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کرے تاہم اس میں چیلنجز ہیں۔ 75 سال سے جاری بینکاری نظام کو یکدم تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن حکومت نے اپنی حد تک کی گئی اپیلیںواپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دریں اثنا وفاقی وزیرخزانہ نے جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ جے یو آئی کے ترجمان اسلم غوری کے مطابق مولانا فضل الرحمن کی کوششوں سے حکومت نے سود کے خلاف اپیلیں واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ اس سے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی جانب پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔
سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت نے 14 نومبر 1991ء کو تاریخی فیصلہ صادر کیا تھا جس میں ہر قسم کا سود (ربا) اور انٹرسٹ غیرشرعی قرار دیدیا گیا۔ اس فیصلے کو اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یونائیڈ بنک کے ذریعے چیلنج کیا اور اپنے تحفظات کے ساتھ نظرثانی کیلئے اسے شریعت کورٹ کو واپس بھجوا دیا۔ اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک یہ فیصلہ شرعی عدالت میں پڑا رہا۔ اس دوران شرعی عدالت کے کئی چیف جسٹس اور جج صاحبان یا تو تبدیل کر دیئے گئے یا ریٹائرڈ ہوتے رہے۔ یوں یہ فیصلہ متعلقہ اداروں کی طرف سے عدم توجہی کا مظہر دکھائی دیتا رہا‘ تاہم بعض جماعتوں‘ تنظیموں اور افراد کی پہیم کاوشوں کے نتیجے میں شرعی عدالت کی طرف سے فیصلے پر نظرثانی کی اپیلوں میں تمام پہلوئوں اور جزیات پر تفصیلی غوروخوض کے بعد 28 اپریل 2022ء کو فیصلہ صادر ہو گیا۔ اس فیصلے میں بھی سود کی ہر قسم کو حرام اور اس کیلئے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کیلئے پانچ سال کی مہلت دی گئی اور 31 دسمبر 2027ء تک تمام قوانین کو سود سے پاک اسلامی اصولوں میں ڈھالنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ستم یہ ہے کہ اس فیصلے پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تو وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک نے اسے خوش آئند قرار دیا مگر بعدازاں انہی اداروں نے مذکورہ فیصلے کو پانچ بنکوں کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ حکومت کے زیرانتظام سٹیٹ بنک‘ وزارت خزانہ کی زیرنگرانی ملک کے تمام بینکاری نظام کی مانیٹرنگ اور اس سے متعلقہ قوانین اور ضوابط پر عملدرآمد کا ذمہ دار ادارہ ہے جبکہ 1973ء کے متفقہ آئین کی رو سے ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا‘ لیکن اس واضح آئینی تقاضے کے باوجودہر دور کی حکومت نے اسے نظرانداز کئے رکھا اور وہ عمل جسے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ قرار دیا گیا‘ اسے من و عن جاری رکھا گیا۔ اس حکومتی اقدام پر ملک کے مذہبی‘ سماجی اور عوامی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ اس عدالتی فیصلہ کیخلاف اپیل واپس لی جائے اور اس آئینی ذمہ داری کو پورا کیا جائے جس کا تقاضا آئین میں کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے شرعی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے پر خود حکومت میں شامل مذہبی جماعتوں اور ان کی قیادتوں پر بھی عوامی سطح پر شدید تنقید کی جاتی رہی۔ چنانچہ عوام کے مسلسل دبائو کے نتیجے میں حکومت نے اب فیڈرل شریعت کورٹ کے سود کے خلاف دیئے جانے والے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اصولی طورپر تو جب شریعت کورٹ کی طرف سے سود کے خلاف دو ٹوک فیصلہ جاری کر دیا گیا تھا‘ اسی وقت اسے من و عن تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کا آغاز کر دیا جاتا اور نظام معیشت کو سود سے پاک کر کے اسلامی نظام کے مطابق ڈھالنے کی سعی مشکور کی جاتی‘ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور مصلحتوں کا شکار حکومتیں شریعت کے اس اہم ترین تقاضے پر عملدرآمد سے بوجوہ گریزاں رہیں جس کی وجہ سے یہ کام جو آج سے کم و بیش تین عشروں قبل ہونا چاہئے تھا‘ وہ کسی شرعی عذر اور جواز کے بغیر معلق رہا۔
اس عرصہ کے دوران جس قدر بھی سودی کاروبار ہوا اور اس میں اداروں اور حکومتوں کی طرف سے سہولت کاری ہوئی‘ اس سب کا گناہ بھی اس دور کے ذمہ داروں‘ فیصلہ اور پالیسی سازوںکے سر جاتا ہے۔ بہرحال اب جبکہ حکومت نے اپنی غلطی کا احساس و ادارک کرتے ہوئے اپنے فیصلے سے رجوع کرنے کا عندیہ دیدیا ہے تو دیر آید درست آید کے مصداق ہمیں اس اقدام کی تحسین کرنی چاہئے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت اس فیصلے پر بلا تاخیر عملدرآمد کروائے گی اور موجودہ بینکاری نظام سمیت پورے نظام معیشت کو ہی اسلام کے سنہری اصولوں کی روشنی میں ڈھالنے کی کوششوں کا آغاز کیا جائے گا۔ موجودہ سودی نظام کو اسلامی نظام کے قالب میں ڈھالنے کیلئے حکومت اور متعلقہ اداروں کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیںہونی چاہئے۔ شرعی عدالت نے خود اس مقصد کیلئے پانچ سال کی مہلت دے رکھی ہے۔ اس عرصہ میں اسلامی ممالک سمیت بعض یورپی ممالک میں پہلے سے زیرعمل غیر سودی بنکاری نظام سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے ماہرین معیشت نے بھی اس حوالے سے تمام ورکنگ کر رکھی ہے۔ اسے بھی پیش نظر رکھا جانا چاہئے تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے قائم اس مملکت خداداد میں خدا کا نظام اپنی روح کے مطابق جاری و ساری ہوسکے اور پوری قوم اس کی برکات سے مستفید ہو سکے۔