• news

لانگ مارچ فوری رکوانے کی استدعا مسترد : راستے کھلوانا انتظامیہ کا کام : اسلام آباد ہائیکورٹ 

لاہور؍ اسلام آباد؍ راولپنڈی  (سپیشل رپورٹر+ وقائع نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ فوری رکوانے کی استدعا مستردکردی ہے۔ عدالت نے وزارت داخلہ، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری اور آئی جی سمیت دیگر فریقین سے 14 نومبر کو جواب طلب کرلیا ہے۔  عدالت نے کہا سوموار کو دلائل سن کر تفصیلی فیصلہ کر دیں گے۔  عدالت نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دئیے مینار پاکستان سمیت دیگر جلسوں کو روکنے بارے فیصلے جاری ہوچکے ہیں، آپ نے جو فریق بنائے ہیں وہ تو لانگ مارچ روکنے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔ مجھے یہ بتائیں کہ آپ متاثرہ فریق کیسے ہیں؟۔ عدالت نے کہا مریم نواز کے جلسے سے متعلق بھی تفصیلی فیصلہ جاری کر چکے ہیں جس میں ہر سیاسی جماعت کو آرٹیکل 16 کے تحت پرامن احتجاج کا حق ہونا قرار دیا گیا ہے۔  احتجاج کرنا ہر شہری اور سیاسی جماعت کا حق ہے۔  چیئرمین سپریم کونسل برائے انجمن تاجران پاکستان نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ رواں برس اپریل میں پی ٹی آئی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد مسلم لیگ ن اور اتحادی برسر اقتدار آئے، ملک میں سیاسی جماعتوں کے جاری جلسوں اور لانگ مارچ کی وجہ سے  قومی تجارت اور تاجر خطرے سے دوچار ہیں، سابق وزیر اعظم مسلسل یہ بیانیہ بنانے کی کوشش میں ہے کہ ان کو بین الاقوامی سازش کے تحت ہٹایا گیا،  عمران خان کے کہنے پر ملک بھر میں احتجاج جاری ہے،  ماہ مئی میں عمران خان کے لانگ مارچ کو وفاقی حکومت نے اچھے انداز سے ڈی چوک سے دوسری جگہ منتقل کیا تھا، عمران خان اب جی ٹی روڈ سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر رہے ہیں، لانگ مارچ کی وجہ سے ایک خاتون رپورٹر جاں بحق ہو چکی ہے،  عمران خان خود بھی بدقسمتی سے اسی لانگ مارچ میں زخمی ہوئے ہیں، عمران خان پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے پی ٹی آئی کارکنوں نے پنجاب کی تمام سڑکیں بند کر دیں، موٹروے کے داخلی راستوں پر بھی پی ٹی آئی کارکنوں نے قبضہ کر رکھا ہے، پاکستان ایک طرف دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے تو دوسری طرف لانگ مارچ اور احتجاجوں کے اعلانات کئے جا رہے ہیں، ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر اگر عمران خان کو لانگ مارچ سے نہ روکا گیا تو ملک میں افراتفری کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، آئین ہر شہری کو قانون کے دائرہ میں رہ کر اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، آئین میں کسی کو کسی کی تجارتی سرگرمیاں اور امن تباہ کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے، پی ٹی آئی نے اگر لانگ مارچ اور دیگر سرگرمیاں منسوخ نہ کیں تو جمہوری نظام کو نقصان ہو گا، استدعا ہے کہ حکومت کو پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کا بندوبست کرنے کا حکم دیا جائے۔ تاجروں اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقنی بنانے کا بھی حکم دیا جائے۔ پی ٹی آئی کو شہروں سے دور کھلی جگہوں پر قانون کے مطابق احتجاجی مظاہرہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ اسلام آباد سے وقائع نگار کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف  کے رہنما زاہد اکبر کی گرفتاری اور سب جیل میں رکھنے کے خلاف درخواست میں تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کو کالعدم قرار دیتے ہوئے زاہد اکبر کی فوری رہائی کا حکم دیدیا۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل علی بخاری ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے۔ عدالت نے کہاکہ راستے بند ہیں تو راستہ کھلوانا انتظامیہ کا کام ہے، پولیس کی مدعیت میں کیسز بنتے اور چلتے رہتے ہیں، حکومتیں چلی جاتی ہیں، ٹرائل کورٹس چوبیس چوبیس گھنٹے کام کریں اور شہادتوں کی بنیاد پر مقدمات کے فیصلے کریں، جب مجسٹریٹس ڈرتے رہیں گے کہ کل دوسروں کی حکومت آجائے گی تو ایسے کام نہیں چلے گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جب کوئی غیر قانونی اقدام اٹھائے گا تو کارروائی ہوگی، راستے دھرنے سے بند ہوں یا کنٹینر سے کھلوانا انتظامیہ کا کام ہے، جو غیر قانونی کام کرے کارروائی کریں، چالان پیش کریں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ شہری زاہد اکبر  کو کیوں گرفتار کیاگیا؟ کیوں سب جیل میں رکھا گیا ہے؟، جس پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ گرفتار شخص زاہد اکبر نے جلاؤ گھیراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ عدالت نے کہاکہ اگر آپ کو خطرہ ہے کہ حالات خراب ہو سکتے ہیں تو آپ متعلقہ افراد سے ضمانتی مچلکے لیں، وکلاء  کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالا احکامات جاری کردیئے۔ اسلام آباد سے وقائع نگار کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے وفاقی دارالحکومت کے تاجروں کی پی ٹی آئی دھرنا کے باعث سڑکوں کی بندش کے خلاف درخواست میں وزارت داخلہ حکام کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وزارت داخلہ کا جوائنٹ سیکرٹری سطح کا افسر پیش ہو۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے سردار عمر اسلم ایڈووکیٹ جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل عظمت بشیر تارڑ عدالت پیش ہوئے۔ درخواست میں کہا گیا کہ اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے اب تک احتجاج کیے جارہے ہیں، آزادی مارچ دھرنا کا اعلان اور قائدین کی ہدایت پر سڑکیں بند کردی گئیں، شہریوں اور تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، حکومت کو سڑکیں خصوصاً موٹروے پر ٹریفک روانی برقرار رکھنے کی ہدایت کی جائے، پی ٹی آئی کو پابند کیا جائے دھرنا اور جلسہ کا انعقاد اسلام آباد سے باہر کریں، عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کردی۔ راولپنڈی  سے اپنے سٹاف رپورٹر سے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کے  جسٹس وقاص رئوف مرزا نے راولپنڈی میںسڑکوں کی بندش کے خلاف مختلف رٹ پٹیشنوں پر قرار دیا کہ تمام انتظامی افسران اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہوگئے ہیں۔ کیا احتجاج کا یہ مطلب ہے کہ چند جتھے جب چاہیں آئیں جو وہ کہیں وہ ہم کریں۔ اس کا کون جواب دے گا۔ عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی میں آپ نے کیا کردار ادا کیا اس کے بارے میں رپورٹ جمع کرائیں پھر عدالت دیکھے گی کہ ایسے لوگوں کو ملکی سروس میں رہنا چاہیے یا نہیں۔ عدالت عالیہ نے ریمارکس دئیے کہ پولیس فریق بن چکی ہے سب رپورٹ دیں پھر دیکھیں گے اگر کوئی جواز پیش نہ کیا جاسکا تو پھر قانون اپنا راستہ خود لے گا۔ سیاسی کلچر ایک ہی ہے، آج یہ ہیں تو کل کوئی اور ہوگا۔ ہم نے اپنا آئینی حق و اختیار استعمال کرنا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جنرل سیکرٹری اسد عمر، وفاقی سیکرٹری داخلہ، چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔ عدالت عالیہ نے آئی جی موٹروے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر مزید سماعت 16نومبر تک ملتوی کردی گئی۔ جمعہ کے روز سماعت کے دوران عدالت نے کہا  تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں سڑکیں کتنی جگہوں سے بند تھیں، اس پر آپ نے کیا کارروائی کی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ عوام کے بنیادی حقوق کون یقینی بنائے گا۔ کیا کوئی آسمان سے آئے گا۔ یہ کس کی ذمہ داری ہے، آپ لوگ ریاست اور عوام کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ پولیس اور بیورکریٹس اس لئے رکھے ہوئے ہیں، احتجاج کا حق یہ ہے کہ کوئی آئے سڑک بند کرائے اور انتظامیہ اس کا ساتھ دے، آئین و قانون میں کہاں لکھا ہے کہ احتجاج کیلئے سڑک بند کرنا ہے۔ عدالت نے انتظامی افسران اور سرکاری وکلا کی طرف سے سڑکوں کی بندش کے حوالے سے مختلف جواز دینے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ پچھلے سات دنوں میں کیا ہوا۔ آپ اسی دنیا میں رہتے ہیں یا کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ اگر ہم آزادانہ نقل و حرکت نہیں کرسکے تو عام لوگوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔ لوگوں کو یرغمال بنایا گیا۔ بچے بچیاں گھنٹوں گھروں میں نہ پہنچے۔ کبھی سوچا ان کے والدین پر کیا گزری ہوگی۔ مری روڈ کو چند لوگوں نے بند رکھا پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ کمشنر ثاقب منان اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ریٹائرڈ) شعیب علی نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ سڑکیں کھلوانے کیلئے مظاہرین سے رابطے کرتے رہے لیکن ٹولیوں میں مظاہرین آکر سڑکیں بند کرتے رہے۔ انتظامیہ و پولیس جانے پر سڑک کھل جاتی تھی جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کی انفارمیشن درست نہیں ہے، حقائق ایسے نہیں ہیں، اپنی اپنی کارکردگی کی رپورٹ دیں، سڑکوں کو بند کرنے والوں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن