آرمی چیف کی الوداعی ملاقاتیں اور نئے سپہ سالار کی تقرری کا معاملہ
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریٹائرمنٹ سے قبل مختلف فارمیشنز کے الوداعی دورے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق سپہ سالار نے جمعرات کو سیالکوٹ اور منگلا گیریژن کا دورہ کیا۔ سیالکوٹ پہنچنے پر آرمی چیف کا لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر اور منگلا گیریژن میں لیفٹیننٹ جنرل ایمن بلال صفدر نے استقبال کیا۔ آرمی چیف نے اس دوران دونوں مقامات پر افسران‘ جوانوں سے ملاقات کی اور خطاب بھی کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے مختلف آپریشنز‘ ٹریننگ اور قدرتی آفات کے دوران بہترین کارکردگی پر فارمیشنز کو سراہا۔ انہوں نے فوجیوں کو مشورہ دیا کہ حالات جیسے بھی ہوں‘ وہ اسی جذبے اور عزم کے ساتھ قوم کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہیں۔
ریٹائرمنٹ پر جانے والے آرمی چیف کی اس نوع کی الوداعی ملاقاتیں آرمی کی روایات کا حصہ ہیں۔ ہر سپہ سالار جب مدت ملازمت کے اختتام پر ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچتا ہے تو وہ مختلف فارمیشنز کا دورہ کرتا اور آرمی افسران اورجوانوں سے نہ صرف ملاقاتیں کرتا بلکہ ان سے خطاب بھی کرتا ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ان دنوں الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ انہیں تین سال قبل مدت ملازمت کی تکمیل کے بعد تین سال کی توسیع دی گئی تھی جو ماہ رواں میں ختم ہورہی ہے۔ اس توسیع کے بعد وہ ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ان کی مزید توسیع کے حوالے سے افواہیں بھی گرم رہیں حالانکہ وہ خود مزید توسیع نہ لینے کا بھی اعلان کر چکے ہیں اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار بھی متعدد مرتبہ پریس بریفنگ کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ اپنے عہدہ ملازمت میں مزید توسیع کے خواہاں نہیں ہیں اور ریٹائرمنٹ کا وقت آنے پر وہ ملازمت سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس تناظرمیں آرمی چیف کی مختلف فارمیشنز کے دوروں اور الوداعی ملاقاتوں کے بعد ان کی ملازمت میں مزید توسیع کی افواہیں ازخود دم توڑ گئی ہیں۔
آرمی چیف کے باقاعدہ ریٹائرمنٹ پر جانے سے قبل ان کی جگہ تعینات کئے جانے والے نئے آرمی چیف کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ یہ اعلان وزیراعظم محمد شہبازشریف کریں گے جس کا کہ آئین میں انہیں اختیار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے انہوں نے اپنی جماعت کے قائد میاں نوازشریف سے مشاورت بھی کر لی ہے۔ دو روز قبل مصر کے دورے سے واپسی پر وہ وطن آنے سے پہلے لندن چلے گئے تھے جہاں انہوں نے محمد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز سے بھی ملاقاتیں کیں اور نئے آرمی چیف کے تقرر سمیت ملک کو درپیش دیگر اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سلسلے میں وزیردفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ ایک دو روز میں کچھ نہ کچھ سامنے آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم لندن محض آرمی چیف کی تقرری پر مشاورت اور رہنمائی کیلئے ہی آئے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کو زیادہ سے زیادہ متازع بنانا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف کیلئے سمری پیش کرنے کی روایت برقرار رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آرمی چیف کی طرف سے الوداعی ملاقاتیں اور اس حوالے سے جاری کردہ بیان بہت اہم اشارہ ہے کہ ادارہ اس معاملے کو کس طرف لے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ افواج کسی غیرآئینی و غیرقانونی اقدام کی طرف نہیں جائیں گی۔
بہرحال یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں مزید توسیع نہیں ہوگی اور نئے آرمی چیف کے تقرر کے سلسلے میں سینئر جنرلز کی فہرست پر مشتمل سمری ایک دو روز میں وزارت دفاع کی طرف سے وزیراعظم کو بھجوا دی جائے گی اور اگلے چند روز میں نئے آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ بھی کر لیا جائے گا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آرمی چیف کوئی بھی ہو‘ وہ ملک کے دفاع کے تقاضے نبھانے کا مکلف ہوتا ہے۔ اس کی اولین ترجیح ملک کی سرحدوں کی حفاظت‘ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کی بحالی میں حکومت کی معاونت کرنا ہوتی ہے۔ فوج کا ادارہ ایک منظم اور مستحکم ادارہ ہے جس میں چین آف کمانڈ کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ جس میں ڈسپلن کی پابندی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ چنانچہ پاک فوج کا جو بھی سپہ سالار مقرر کیا جائے گا‘ وہ آئین کی پاسداری اور اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کا پابند ہوگا۔ لہٰذا کسی بھی انداز یا کسی بھی طریقہ سے فوج کو سیاست میں ملوث کرنا ملک سے دشمنی کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح افواج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرنا یا ان کی تضحیک یا بے توقیری کی سمت اٹھایا جانے والا ہر قدم قابل نفرت ہی نہیں‘ قابل تعزیر بھی ہے۔ آئین میں اس کی سزا کا واضح طورپر تعین کیا گیا ہے۔ وہ لوگ‘ ادارے یا جماعتیں یا تنظیمیں جو فوج کو آپس میں لڑانے یا اسے کمزور کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں‘ انہیں کسی طورپر بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان دانستہ یا نا دانستہ طورپر ایسے راستے پر چل رہے ہیں جو تباہی و بربادی کا راستہ ہے ۔وہ اس وقت فکری تضاد ات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔نئے آرمی چیف کا تقرر ان کے اعصاب پر سوا رہو چکا ہے۔ وہ ایک طرف نئے آرمی چیف کے تقرر تک اسلام آباد کی طرف چڑھائی کے لیے لانگ مارچ جاری رکھے ہوئے اور نیوٹرل ہونے کی بنا پرعسکری قیادت کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور دوسری طرف اسی ادارے کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ان کے کردار کا یہ پہلو عوامی اور عسکری حلقوں میں ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے ۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کو مسئلہ بنانا کسی بھی جمہوریت پسند سیاستدان کو زیب نہیں دیتا ۔بہر حال اگر ہر کام میرٹ پر ہو اور ادارے اپنے اپنے آئینی دائرے اور حدود میں رہ کر کام کریں تو سسٹم کو نقصان پہنچنے کا امکان پیدا نہیں ہوگا۔ اہل سیاست کو اپنے تمام معاملات‘ قضیے اور تنازعات پارلیمنٹ کے اندر ہی طے کرنا چاہئیں۔ فوج یا کسی دوسرے ادارے کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔ جمہوریت کی بقاء کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سے اغماز جمہوریت ہی کیلئے نقصان دہ نہیں‘ ملک و قوم کی سلامتی کیلئے بھی خطرناک ہوگا۔