استاد دامن: آزادی کا متوالا عوامی شاعر
پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ سامنے مائیک پر ایک پہلوان سے آدمی آئے ۔ بڑے کنارے والا لاچا، کرتہ غالباً بوسکی کا ، گلے میں ڈالی ہوئی دونوں گھٹنوں کو چھوتی ایک شوخ سے رنگ کی چادر اور سر پر رنگ برنگا پٹکا باندھا ہوا، یہ پنجابی کے معروف عوامی شاعر استاد دامنؔ تھے ۔ انہیں دیکھ کر سامنے بیٹھے تمام طالب علموں نے بیک وقت سیٹی بجانی شروع کر دی ۔ استاد دامن تھوڑی دیر انہیں بے نیازی سے تکتے رہے ۔ پھر ایک دم ان کی جی میں جانے کیا آئی کہ اذان دینے کے انداز میں اپنے دونوں ہاتھ، دونوں کانوں پر رکھ کرمنہ مائیک کے اور قریب کر لیا۔ مرغے کی آواز میں پورے زور سے بولے ۔ ککڑوں کڑوں ۔ لڑکوں کی سیٹی ٹوٹ گئی۔ سبھی بے اختیار ہنسنے لگے ۔پھر ہاسا تھا کہ کسی کا بھی رک نہیں رہا تھا ۔تھوڑی دیر بعد استاد دامن کی آواز آئی۔ ’ مجھے کیا ہوٹ کرتے ہو؟میں تو خود بہت بڑا بھانڈ ہوں‘۔ اس روز انہوں نے جو نظم سنائی اس کا ایک شعر اب تک حافظے میں محفوظ ہے ۔
ایہہ کالج اے کڑیاں منڈیاں دا
یا فیشناں دی کوئی فیکٹری اے
ایتھے کڑی منڈے نال اینج پھردی
جیویں الجبرے نال جیومیٹری اے
یہ واقعہ کالم نگار کو اس وقت یاد آیا جب اسے فون پر بائیں بازو کے ایک کارکن کشفی صاحب نے گوجرانوالہ آرٹ کونسل میں 11 نومبر بروز جمعۃ المبارک کودامنؔ برسی منانے کی اطلاع دی ۔ یہ تقریب گوجرانوالہ کے ترقی پسند مصنفین کی انجمن کے زیر اہتمام منعقد ہو رہی تھی ۔ اللہ چوہدری محمد انور کمبوہ ایڈووکیٹ کوصحت اور زندگی عطا فرمائے ۔ انہوں نے برسوں سے پہلوانوں کے شہر میں اپنے ساتھیوں کی مدد سے ادب کی یہ شمع جلا رکھی ہے ۔ کالم نگار اپنی مصروفیت کے باعث صرف تھوڑی دیر کے لئے وہاں پہنچ سکا۔ ادب دوست حاضرین سے بھرا ہوا ہال دیکھ کربہت خوشی ہوئی ۔
استاد دامنؔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے سپاہی تھے ۔ وہ اپنی پنجابی نظموں سے کانگریس کے جلسوں کو گرماتے رہے ۔ لیکن آزادی ان کے لئے بہت دکھ لے کر آئی ۔ ان کے پنجابی بھائیوں نے ان کی لائبریری اور مکان کو آگ لگا دی ۔ قیمتی کتابوں کے ساتھ ان کی لکھی شاعری کی کتاب ’’ہیر رانجھا ‘‘ کا مسودہ بھی جل گیا۔ 1947ء کے ہنگاموں میں ان کے بیوی بچے بھی بچھڑ گئے ۔ بعد میں بیماری کی حالت میں ملے ۔ مگر وہ جلد ہی دونوں اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ استاد دامن ؔ ان پے درپے صدموں سے اتنا دلبرداشتہ ہوئے کہ وہ باغبانپورہ میں اپنا گھر بار چھوڑ کر1950ء میں درویش شاہ حسین کے حجرے میں آگئے ۔ برسوں پہلے شاہ حسین نے اسی حجرے میں سلوک کی منزلیں طے کی تھیں۔ شاہ حسین کا حجرہ پھر سے آباد ہو گیا۔ ان دنوں استاد دامن ؔ اکیڈیمی اسی میں ہے ۔آزادی کے تھوڑے عرصے بعد دلی میں ایک پاک و ہند مشاعرہ تھا۔ استاد دامن ؔ نے وہاں یہ نظم سنائی :
بھانویں مونہوں نہ کہیے پر وچو وچّی
کھوئے تُسی وی او کھوئے اسیں وی آں
اینہاں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تُسی وی او ہوئے اسیں وی آں
کجھ امید اے زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او موئے اسیں وی آں
جیوندی جان ای موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او ڈھوئے اسیں وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسیں وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسیں وی آں
ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت نہرو مشاعرے میں موجود تھے ۔انہوں نے استاد دامن ؔ کو گلے لگا لیا ۔ انہیں ہندوستان رہ جانے کی دعوت دی لیکن یہ وطن پرست شاعر بولے ۔ ’’میں لاہور ہی میں رہوں گا۔ چاہے مجھے جیل ہی رہنا پڑے ‘‘۔ صدر ایوب اور مادرملت کے صدارتی الیکشن میں بھی یہ مادرملت کی انتخابی مہم میں بہت سرگرم رہے ۔
پتر نال مقابلہ ماں دا اے
بولاں بولیاں دا کیہڑا بھاء پاندا؟
چٹے جھاٹے دی کیہڑا ہے لاج رکھدا؟
کون ماں سے سِرء چ سواہ پاندا؟
بھٹودور میں ان کی ایک نظم بڑی مشہور ہوئی ۔ ’کیہہ کری جاناں ایں ، کیہہ کری جاناں ایں ، لئی کھیس جاناں ایں ، کھچی دری جاناں ایں ، کدی شملے جاناں ایں ، کدی مری جاناں ایں ‘۔ اس نظم میں یار لوگوں نے بہت سے ناقابل اشاعت مصرعے بھی شامل کر رکھے تھے ۔ لیکن یہ سب ان کی شاعری کی کتاب ’’دامنؔ دے موتی ‘‘ میں موجود نہیں۔ لیکن اس نظم کے باعث آخری عمر میں ان پر بہت عتاب آئے ۔ پولیس نے ان کے حجرے پر چھاپہ مارا اور بم کی فرضی برآمدگی ڈال دی ۔ اس پر استاد دامنؔ کاشعری تبصرہ خوب تھا:
نہ پُڑی نہ چرس تے نہ شراب دامن ؔ
تے شاعر دے گھرچوں بم نکلے
استاد دامن نے کہا تھا ’مینوں دھرتی قلعی کرا دے، میں نچاں ساری رات ‘ ۔ یہ شاعر ، ادیب ،مصور، فنکار لوگ اپنی سرزمین میں حسن و جمال اور امن شانتی کے خواب گر ہوتے ہیں۔ کالم نگار کی ان کے شاگرد رشید سائیں اختر لاہوری (نظم اللہ میاں تھلے آ فیم ) سے خاصی یاد اللہ تھی ۔ ان سے استاد دامنؔ کی بہت سی گفتنی ناگفتنی کہانیاں سننے کو ملتی رہیں۔