طلب و رسد کا قانون یا بلیک میلنگ
ویسے تو پاکستان میں مہنگائی ہمیشہ کا مسئلہ رہی ہے اور کسی بھی چیز کے مہنگا ہونے کی وجہ اسکی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی بیان کی جاتی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اسے ’’ سپلائی اینڈ ڈیمانڈ‘‘ کا قانون کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہ اس سے ’’ اوپن مارکیٹ‘‘ جنم لیتی ہے جو کہ دنیا کے معاشی نظام کے ٹھیکیداروں کے مطابق مارکیٹ کیلئے ضروری ہے۔
اس قانون کے تحت جب کسی چیز کی طلب بڑھتی ہے تو اسکی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور جب اسکی قیمت میں ایک حد سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے تو اسکی طلب میں کمی ہو نا شروع ہو جاتی ہے ، کیونکہ زیادہ اضافہ کی بنا پر اسکی قیمت عوام کی پہنچ سے باہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس طرح آخر کا ر اسکی قیمت ایک متوازن سطح پر پہنچ کر رک جاتی ہے۔ یہ اوپن مارکیٹ کی روح ہے اور مغربی اور غیر اسلامی معاشی نظام میں ہمیں یہی پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ سب واقعی ضروری ہے اور کیا اسکے کوئی اخلاقی پہلو بھی ہیں؟ فرض کریں میں اپنی زمین یا فیکٹری میں کوئی بھی چیز دس روپے میں بنا کر پندرہ روپے میں آگے فروخت کررہا ہوں۔ میں ایک دن میں سو کی تعداد میں یہ چیز بنا تا ہوں اور اچانک اسکے دو سو خریدار آ جاتے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ جو پہلے سو خریدار میرے پاس آئیں میں انکو یہ چیز اپنا منافع رکھ کر پندرہ روپے میں دے دوں اور باقیوں سے کہوں کہ آپ اپنی باری کا انتظار کریں۔ اسکے برعکس میںیہ کہتا ہوں کہ خریدار زیادہ ہیں تو جو مجھے پندرہ کی بجائے بیس یا پچیس روپے دیگا اسے میں اپنی جنس فروخت کرونگا اور اسی طرح قیمتوں میں اضافہ کرتا جائوں تو درحقیقت میری یہ حرکت کیا ہو گی؟ معاشی قانون ہے یا بلیک میلنگ؟ دوسرا یہ کہ اگر یہ چیز خریدار کیلئے ضروری اور و ہ اسے خریدنے کیلئے مجبور ہے تو کیا کبھی اس چیز کی قیمت اوپر بیان کردہ قانون کے مطابق متوازن ہو گی ؟ اگر کوئی تقسیم کار مجھ سے یہ جنس خرید کر آگے بیچ رہا ہے تو اس سوال کا اطلاق اس پر بھی ہوتا ہے۔ ہم غیر مسلموں کے اس طلب ا ور رسد کے قانون کے مطابق پیسہ تو کما رہے ہیں لیکن ہم نے اس کا صرف وہ حصہ سیکھا ہے جو ہماری ذات کو معاشی فائدہ دیتا ہے۔ یہ قانون بنانے اور سمجھانے والوں کے یہاں اس کا ایک بہت بڑا ’’اخلاقی پہلو‘‘ بھی ہے جو ہم نے سیکھا ہے اور نہ سیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ہمارے مطابق سیدھا جہنم میں جانے ہیں وہ اس پر مکمل عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ یہ کہ انکے یہاں اس قانون کا اطلاق غیر ضروری اجناس جیسے پراپرٹی، مہنگے لباس، لگژری آئیٹمز وغیرہ پر تو ہوتا ہے لیکن ضروری اجناس جن میں ضروری ادویات، اشیائے خور و نوش وغیرہ شامل ہے پر اس معاشی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کسی بھی قسم کی قدرتی آفت آ جائے ، بنیادی انسانی ضرورتوں کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا بلکہ اکثر ان (جہنمی) ممالک میں ان ضروری اشیاء کی قیمتوں میں رضا کارانہ طور پر کمی کر دی جاتی ہے۔ اسکے بر عکس جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حامل ہونے کے دعویدار یعنی ہم، کسی بھی قدرتی آفت میں عام ضروری اجناس تو ایک طرف، آفت زدہ لوگوں کی امداد کیلئے ضروری چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیتے ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا کوئی حل ہے؟
موجودہ حالات میں میں کہنے پر مجبور ہوں کہ نہیں کیونکہ اسکا تعلق ہماری اخلاقیات اور تربیت سے ہے جس کی ہماری قوم میں شدید کمی ہے۔ ہماری اس حالت اور اخلاقی پستی کی اصل وجہ سیاسی اور معاشرتی شعور کا ناپید ہونا ہے۔ مہذب ممالک میں اگر کسی دکان، ریسٹورنٹ کے بارے میں کوئی خبر آ جائے، کسی قدرتی آفت میں کوئی امریکی چین سٹور کسی ضروری چیز کی قیمت میں ذرا سا بھی اضافہ کر دے تو حکومت اور متعلقہ ادارے تو جو ایکشن لیں گے سو لیں گے، سب سے پہلا رد عمل عوام کی جانب سے آتا ہے اور لوگ ایسے کاروبار کی جانب رخ کرنا انسانیت کیخلاف ایک جرم سمجھتے ہیں اس لیے وہاں کے تمام کاروباری اداروں کو معلوم ہے کہ اگر کسی نے بنیادی انسانی ضرورت کی اجناس کو لیکر کسی بھی قسم کی ناجائز منافع خوری کی کوشش کی تو عوام نے اپنے خاموش احتجاج کے ذریعے انکا کاروبار ہی بند کروا دینا ہے۔ اسکے برعکس ہمارا کوئی سٹور، بیکری یا ریسٹورنٹ اگر کسی وجہ سے سیل ہو جائے اور اسکی وجوہات کی وڈیوز بھی موجود ہوں تو ہم بے تابی سے اسکے کھلنے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر وہاں پہلے سے زیادہ بھیڑ نظر آتی ہے۔
اسی طرح ادویات کی قیمتیں ہوں یا خوراک و اجناس ، طلب اور رسد کے نام پر بلیک میلنگ کو ہم نے ’’ کاروبار‘‘ تسلیم کیا ہوا ہے اور بلیک میل ہونا ہمیںقبول ہے۔ جب قوم میں احساس ہی نہیں اور غلط اور درست کا شعور ہی نہیں تو پھر نہ حکومت کا کوئی قصور ہے اور نہ حکمرانوں کا۔ یہ دنیا کا قانون بھی ہے اور خالق کا قول بھی۔ سورۃ الرعد کی آیت نمبر ۱۱ کا مفہوم ہے کہ ’’بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، یہاں تک کہ وہ لوگ خود اپنے آپ میںتبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘ جسے شعر کی زبان میں یوں بیان کیا گیا ہے جسے بچپن سے سنتے آ رہے ہیں لیکن کبھی سمجھے نہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا