• news

امریکا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرے


مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایسا معاملہ ہے جسے حل کیے بغیر دونوں ملکوں کے مابین خوشگوار تعلقات کبھی بھی قائم نہیں ہوسکتے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا متنازعہ علاقہ مانتی ہے اور اس حوالے سے اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی واضح قراردادیں موجود ہیں جن سے بھارت چاہ کر بھی انکار نہیں کرسکتا۔ مسئلہ کشمیر جتنی جلد حل ہوگا خطے میں پائیدار امن کے قیام کا خواب اتنی ہی جلد شرمندۂ تعبیر ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ وادی کی حیثیت بدلنے کی کوشش کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ 1196 روز سے جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ ہے جسے بھارت اس ڈر سے نہیں ہٹا رہا کہ اس کے فیصلے پر غیور کشمیری ردعمل کا اظہار کریں گے۔ صرف یہی واقعہ پوری دنیا کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ کشمیر اور کشمیری پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور بھارت اپنی غاصب سکیورٹی فورسز کی مدد سے آزادی کے جدوجہد کو کچلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
عالمی برادری کے مقبوضہ کشمیر سے متعلق موقف کی ایک جھلک امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری اور امریکی محکمہ خارجہ میں جنوب اور وسط ایشیائی امور کے ذمہ دار ڈونلڈ لو (Donald Lu) کے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں دیکھی جاسکتی ہے جس میں انھوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اس مسئلے کا حل اس صورت میں ممکن ہے اگر بیرونی مداخلت کے بغیر بھارت اور پاکستان براہِ راست مذاکرات کریں۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم (Donald Blome) کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ لو نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ ڈونلڈ بلوم پاکستان کے کشمیر کے علاقے میں گئے مگر یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ گزشتہ برسوں میں ہمارے کئی سفیر کئی علاقوں میں جاتے رہے ہیں۔ اسی طرح سفیر بھارت کے کشمیر کے علاقوں کا بھی دورہ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی رد و بدل نہیں۔ انھوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں مقامی الیکشن اور سیاسی حقوق بحال کیے جانے چاہئیں۔ یہ یقینی بنایا جانا چاہیے کہ میڈیا کشمیر میں اپنا کام جاری رکھ سکے۔ کشمیر میں امن کے لیے یہ سب ضروری ہے۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ برسوں میں یہ امن یقینی بنایا جاسکے گا۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 جنگی طیاروں کی فروخت سے متعلق سوال پر ڈونلڈ لو نے کہا کہ بھارت کو لگتا ہے کہ پاکستان کے لیے کسی فوجی امداد کا مقصد اسے بھارت کے خلاف استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ایف 16 طیاروں کا یہ منصوبہ فوجی امداد نہیں بلکہ امریکا کی جانب سے فوجی ساز و سامان کی فروخت ہے۔ پاکستان کے لیے امریکی معاونت ایف16 فائٹر جیٹس کے حوالے سے ہے نہ کہ کسی نئی طیارے، ہتھیار اور عسکری تجویز کے حوالے سے۔ جب بھی امریکا کسی ملک کو فوجی سامان فروخت کرتا ہے تو وہ اس کی تکنیکی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔ بھارت اور امریکا کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دفاعی معاہدوں پر عمل سے امریکا اپنی حساس ٹیکنالوجی بھارت کو منتقل کر رہا ہے اور دونوں ملک اس کی بہتری کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔ ہماری بات چیت چل رہی ہے، جدید ہتھیار جیسے پریڈیٹر ڈرون اور ایف 18 جنگی طیارے بھی ممکنہ طور پر بھارت کو فروخت کیے جاسکتے ہیں۔ ڈونلڈ کا مزید کہنا تھا کہ امریکا نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اعلیٰ سطح پر بات چیت کی ہے۔
ادھر، بھارتی قابض فورسز نے تلاشی اور محاصرے کی کارروائی میں جنوبی کشمیر سے چار بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے نوجوانوں کی غیر قانونی گرفتاری کو جواز فراہم کرنے کے لیے انھیں ایک مجاہد تنظیم کا رکن قرار دیا۔ دوسری جانب نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما شبیر احمد شاہ نے قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیری نوجوانوں کے بے دریغ قتل، بھارتی ریاستی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شہریوں کی املاک کی غیرقانونی ضبطی پر اپنی گہری تشویش کا اظہارکیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی حکومت حریت رہنمائوں کی جائیدادیں ضبط کرکے انھیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس طرح کے ہتھکنڈے کشمیری مزاحمتی رہنمائوں کو اس حق پر مبنی کاز کو آگے بڑھانے سے نہیں روک سکتے جس کے لیے انھوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی غاصب سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں واضح طور پر یہ بتاتی ہیں کہ بھارت کشمیر پر قابض ہے اور کشمیری عوام اس قبضے کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ امریکا دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے اور وہ کئی بین الاقوامی معاملات کو اپنے اس اثر و رسوخ کی مدد سے طے بھی کراتا ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے خطے کا امن و استحکام بھی جڑا ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ہیں اور ان دونوں کے درمیان کسی بھی قسم کی کشیدگی صرف اس خطے کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے گمبھیر مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن