• news

شمالی علاقہ جات کے مجاہدین


محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
شاعر مشرق جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے اس شعر کی اگر تعبیر دیکھنی ہو تو وہ ہمیں شمالی علاقہ جات کے مجاہدین میں نظر آتی ہے۔بہت سے لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ گلگت  بلتستا ن جنہیں شمالی علاقہ جات بھی کہا جاتا ہے پاکستان فوج نے نہیں بلکہ مقامی مجاہدین نے آزاد کرایا تھا۔
اس دور میں شمالی علاقہ جات میں واحد فورس ایک نیم فوجی تنظیم گلگت سکائوٹس تھی جسے دو برٹش آفیسرز کمانڈ کرتے تھے۔اس فورس کا بنیادی مقصد علاقے کے لوگوں کو روزگار فراہم کرنا اور بوقت ضرورت اسے پولیس کی جگہ استعمال کرنا تھا۔یہ علاقہ کشمیر کا حصہ تھا اور تقسیم ہند کے ساتھ ہی مہاراجہ کشمیر نے یہاں اپنا گورنر بریگیڈئیر گنسارا سنگھ بھیج دیا جس نے آکر علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
آزادی کا خیال اس نیم فوجی تنظیم گلگت سکائوٹس میں جنم پذیر ہوا۔ ان لوگوں نے کمال دلیری سے اس پر عمل کیا۔ بریگیڈئیر گنسارا سنگھ کو زیر حراست لیا اور گلگت میں آزادی کا اعلان کر دیا۔ان مجاہدین کی جدوجہد آزادی ایک طلسماتی کہانی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس علاقے کا موجودہ پاکستان سے کوئی رابطہ نہ تھا نہ ہی راولپنڈی تک کوئی سڑک یا راستہ تھا۔
ان کا تمامتر تعلق کشمیر سری نگر سے تھا۔وہیں سے ان پر حکمرانی ہوتی تھی۔ وہیں سے ضروریات زندگی لائی جاتی تھیں۔ وہیں پر یہ لوگ علاج معالجے کے لئے جاتے اور اگر کسی کے وسائل ساتھ دیتے تو وہیں پر یہ لوگ پڑھائی کے لئے بھی جاتے۔سری نگر سے کامری ٹاپ، دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ منی مرگ، برزل پاس،  بونجی استور  گلگت راستہ  تھا۔سکردو کے لئے برزل پاس سے راستہ جدا ہوتا تھا۔برزل پاس چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اور راستہ سردیوںمیں بند ہو جاتا ہے۔
جب ہندوستان تقسیم ہوا تو ان لوگوں نے اڑتی اڑتی خبر سنی کہ ملک تقسیم ہو گیا ہے اور پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک بنا ہے جو مسلمان ہے۔اس خبر کے بعد ان لوگوں کا رجحان پاکستان کی جانب ہوا لیکن ان کے پاس پاکستان سے رابطہ کرنے کا کوئی مناسب ذریعہ نہیں تھا۔یکم نومبر1947ء کو ان لوگوں نے گلگت کی آزادی کا اعلان کیا ۔گلگت سکائوٹس کا صوبیدار میجر بابر خان اس آزادی کا روح رواں تھا۔اس کے ساتھ گلگت سکائوٹس کے تمام جے سی اوز اور کشمیر انفنٹری کے کیپٹن حسن خان شامل تھے۔حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کی سپورٹ کے بغیر ان لوگوں نے اتنا بڑا کام کر ڈالا۔
اب انہوں نے پاکستان سے امداد کی درخواست کی۔ان لوگوں نے پاکستا ن کا نام تو سنا تھا لیکن صحیح جغرافیہ کے لحاظ سے علم نہ تھا۔اب انہوں نے امداد کے لئے وزیر اعظم پاکستان کو خط لکھا لیکن چونکہ پاکستان سے کسی قسم کا رابطہ نہ تھا لہٰذا خط ڈاک میں ڈالنے کے لئے مایون خان نامی ایک سپاہی کو پشاور بھیجا گیاجو پیدل چل کر دو ہفتوں بعد پشاور پہنچا اور خط پوسٹ کیا۔چونکہ انگریز آفیسرز تو گلگت سکائوٹس سے جا چکے تھے لہٰذا پاکستان کی طرف سے دو ہفتوں بعد میجر محمد اسلم خان ائیر مارشل اصغر خان کے بھائی گلگت پہنچے اور گلگت سکائوٹس کی کمان سنبھالی۔ 
اس کے بعد آزادی اور مجاہدین کی تنظیم نو کی ذمہ داری میجر محمد اسلم خان نے سنبھالی ۔ پاکستان فوج کی امداد بہت بعد میں پہنچی جب مجاہدین لیہہ تک پہنچ چکے تھے۔
میجر محمد اسلم خان کو فوری طور پر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور اس نے یہاں چالیس میل پر بونجی میں موجود جموں و کشمیر بٹالین کی دو مسلمان کمپنیاں ، اس یونٹ کے مسلمان آفیسرز و نیم فوجی تنظیم گلگت سکائوٹس اور علاقے کے والنٹئیر لوگوں کو ملا کر ایک مجاہد فورس ترتیب دی جو حالات کے مطابق مختلف اطراف ڈوگرہ فوج کی جوابی کارروائی روکنے اور علاقہ آزاد کرانے کے لئے روانہ کی۔
ایک دستہ وادی نیلم کے راستے سری نگر روانہ ہوا۔دوسرا برزل پاس سے گزر کر گلتری سے ہوتا ہوا کارگل پہنچا اور تیسرا سکردو کے لئے روانہ ہوا جہاں مہاراجہ کی فوج موجود تھی۔اس دستے نے سکردو پر قبضے کے بعد دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ آگے لیہہ کی طرف پیش قدمی کرنی تھی۔یہ دستہ سکردو پہنچا۔ڈوگرہ گریژن پر حملہ کیا لیکن انہیں شکست نہ دے سکا۔
اس دوران پتہ چلا کہ دشمن کا ایک بر یگیڈ جس کا کوڈ نامz  بریگیڈ تھا بر یگیڈئیر فقیر سنگھ کی کمان میں سکردو آرہا ہے اگر یہ   بر یگیڈ سکردو پہنچ جاتا تو یہ باآسانی آگے گلگت تک مارچ کر کے مجاہدین اور ان کی تحریک آزادی کچل سکتا تھا۔ لہٰذا مجاہدین نے فیصلہ کیا کہ اس بر یگیڈ کو سکردو سے دس میل پہلے ’’ تھور گو‘‘ کے مقام پر روکا جائے۔ لہٰذا مجاہدین نے اس مقام پر ارد گرد پہاڑوں پر پوزیشن لے لی۔پہاڑ کافی بلند تھے۔ دوسری طرف دریائے سندھ تھا جو یہاں سے بہت گہرا اور تیز رفتار تھا۔راستہ دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ تھا۔ مجاہدین نے کارگل تک اپنے مخبر پھیلا رکھے تھے جن کی بدولت Z بریگیڈ کی تمام حرکات و سکنات کی خبر ملتی رہی۔
بر یگیڈئیر فقیر سنگھ کو مجاہدین کا علم نہ ہوا۔ اس نے اس مقام پر تھوڑا ٹھہرائو کیا، کھانا  وغیرہ کھایا اور پھر روانہ ہوا۔جونہی یہ برگیڈ ایک موڑ مڑا گھات میں چھپے مجاہدین نے فائر کھول دیا۔ بھاگنے کو کوئی راستہ نہ تھا۔مجاہدین نے اوپر سے پتھر گرانے شروع کر دئیے۔جوانوں نے خوف سے دریا میں چھلانگیں لگا دیں اور لہروں کی  نذر ہو گئے۔ ایک پارٹی نے بر یگیڈ کے عقب میں پوزیشن لے رکھی تھی۔ اس نے پیچھے سے سپاہیوں کی تباہی کر دی۔راستہ لاشوں سے بھر گیا۔بہت کم لوگ بھاگ کر اپنی جانیں بچا سکے ۔
اس کارروائی میں بہت سا اسلحہ ،کھانے کا راشن اور وردیاں وغیرہ مجاہدین کے ہاتھ لگیں بریگیڈیئر فقیر سنگھ شدید زخمی ہو گیا لیکن جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔سیدھا سر ی نگر پہنچا اور شرمندگی کے مارے فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی اور یوں  Z بریگیڈ اپنے انجام کو پہنچا۔
دراصل ان مجاہدین میں دو چیزیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اول آزادی کا جذبہ اور دوسرا پہاڑی علاقوں میں مشکلات کی برداشت۔وہ پہاڑوں کے بیٹے تھے اور دوڑ کر پہاڑوں پر چڑھتے تھے۔ان کے لئے دریا کے ساتھ ساتھ سفر کی صعوبتیں کوئی معنی نہ رکھتی تھیں۔وہ موسم کی شدت کے بھی عادی تھے۔
جبکہZبر یگیڈ کی فورس تعداد میں تو بہت زیادہ تھی مگر نہ تو پوری طرح علاقے سے واقف تھی اور نہ ہی موسم کی شدت اور پہاڑوں میں فیصلہ کن جنگ کی عادی تھی۔لہٰذا آسانی سے مجاہدین کا لقمہ احبل بن گئی۔بریگیڈئیر فقیر سنگھ بھی کوئی جنگجو قسم کا کمانڈر نہ تھا ورنہ اس کے مقابلے میں مجاہدین کی نہ صرف تعداد بہت کم تھی بلکہ ہتھیاروں کے لحاظ سے بھی  نہتے تھے جبکہ فوجی تربیت کا یہ اصول ہے کہ
Ten good soldiers ably led, will beat a hundred without a head.
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن