سورۃ بقرہ کے مضامین (28)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصال کے ساڑھے تین سوسال بعد کا واقعہ بیان کیاگیا ، حضرت موسیٰ ؑکے بعد بنی اسرائیل کے خاندانوں اور قبیلوں پر سردار حکومت کرتے ، قاضی انکے فیصلے کرتے اورانبیائے کرام تمام امور کی نگرانی کیساتھ تبلیغ و تربیت کی خدمات بھی سرانجام دیتے حضرت الیسع ؑکا وصال ہوگیا تو مصر اورفلسطین کے درمیان بحرروم کے ساتھ آباد عمالقہ میں سے ایک جالوت نامی ظالم وجابر حکمران ان پر حملہ آور ہوا، بہت سے سرداروں کو تہہ تیغ کردیا ، بہت لوگوں کو قیدی بناکر ساتھ لے گئے ، باقیوں کو مغلوب ومقہود کرکے خراج مقرر کردیا اور تورات بھی ناپید ہوگی، اس نازک دور حضرت شموئیل ؑ پیدا ہوئے، بنی اسرائیل کے ایک برگزیدہ شخص نے انکی تربیت کی اوریہ تورات کی تعلیم اورحفظ سے بھی بہرور ہوئے، اللہ رب العزت نے انھیں بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمادیا، اس وقت بنی اسرائیل کی مرکزیت مفقود تھی، اورحکومت محض راملہ اورگردونواع کے علاقوں تک محدود تھی، حضرت شموئیل انھیں مقدور بھر ہدایت کا راستہ دکھاتے رہے ، جب وہ بہت کہن سال ہوگئے تو بنی اسرائیل نے بہت اصرار کیاکہ آپ ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے ایک ملک (سردار) مقرر کروادیں ، تاکہ وہ عمالقہ کے ظلم وجور سے نجات حاصل کریں اوراپنے اقتدار اور اپنی عظمت رفتہ کو بازیاب کروالیں حضرت شموئیل علیہ السلام انکی عادات اوراطوار سے بڑی اچھی طرح واقف تھے، کہ یہ لوگ دعوئے تو بہت بلندبانگ کرتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو ان کا سار اجوش وخروش سرد پڑ جاتا ہے اوریہ اپنے قول وقرار کی پاسداری سے مقر جاتے ہیں ،اس لیے آپ نے ارشادفرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہارا ایک حکمران مقرر ہوجائے اور تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد فرض ہوجائے، اورتم جہاد سے منہ موڑ جائو،اورحیلے بہانے کرنے لگو۔ انھوں نے کہا: حضرت ایسا کس طرف ممکن ہے ہمیں گھروں سے نکالا گیا ہے ، اپنے بال بچوں سے جداکردیا گیا ہے ہم تو بس اذنِ ربانی کے منتظر ہیں لیکن جب انھیں اجازت مل گئی تو گنتی کے چند افراد کے سواء سب نے انکار کردیا، جب حکمران مقرر کرنے کیلئے ان کا اصرار بڑھا تو حضرت شموئیل نے فرمایا:اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو سردار بنادیاہے ۔ بنی اسرائیل میںبالعموم انبیاء حضرت لاوی بن یعقوب ؑ، اورسردار حضرت یہود ابن یعقوب ؑکے نسل سے چلے آرہے تھے جبکہ حضرت طالوت کاتعلق حضرت بنیامین کی نسل سے تھا، بنی اسرائیل نے حسب عادت اعتراض کرنا شروع کردیا یہ تو نادار اورغریب قبیلے سے ہے یہ ہمارا سردار کیسے بن سکتا ہے ،حضرت شموئیل علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے تم پربرگزیدہ کیا ہے اوراسے تم پر علمی فوقیت بھی عطاء کی ہے اور جسمانی برتری بھی، حضرت طالوت کی عمر اس وقت تیس سال تھی، یہ حسن وجمال میں بے نظیر اورعلم وشجاعت میں فرد تھے ، قامت کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ دوسرے لوگ بمشکل ان کے کاندھوں تک پہنچتے تھے۔