پیر ،18 ربیع الثانی ھ، 1444، 14 نومبر 2022ء
لندن میں استخارہ میٹنگ 7 روزہ چلہ میں بدل گئی۔ شیخ رشید
بے شک لطائف کی دینا میں شیخ چلی کا نام نامی اسم گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں عرصہ دراز سے کئی نسلیں شیخ چلی کی مزاحیہ کہانیاں پڑھ پڑھ کر دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ مگر کیا مجال ہے کہ شیخ چلی کی کہانیوں کی مانگ کم ہوئی ہو۔ آج بھی بچوں اور بڑوں میں یہ کہانیاں جن میں سے اکثر سبق آموز ہوتی ہیں بے حد مقبول ہیں۔ اسی طرح ہمارے دور میں ہماری ملکی سیاست میں بھی ایک شیخ راولپنڈی موجود ہیں جو سنجیدہ سیاست کے نام پر مزاحیہ سیاست کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی یادہ گوئی کے باوجود لوگ ان کے بیانات ضرور پڑھتے ہیں۔ اکثر لوگ تو خاص کر پی ٹی آئی والے اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ
بس اسی شیخ سے محبت ہے
ورنہ ہر شیخ سے خدا کی پناہ
ویسے گزشتہ روز شیخ رشید نے لندن میں جاری سرگرمیوں کے بارے میں جو بیان دیا وہ بھی خالی از علت نہیں۔ کہتے ہیں ’لندن میں استخارہ میٹنگ 7 روزہ چلہ میں بدل گئی ہے۔‘‘ادھر یہ حال ہے کہ سارے کام ٹھپ ہیں۔ حکومت چل نہیں رہی۔ اس بیان میں بیک وقت کچھ سچ اور کچھ غلو بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف جس طرح لندن جا کر واپس آنا بھول جاتے ہیں اس پر تو سوالات اٹھتے ہی ہیں۔ ورنہ آج کل جدید مواصلات کے دور میں اسلام آباد میں بیٹھے بھی پوری دنیا سے رابطہ ہو جاتا ہے۔ مگر شاید آڈیو لیکس کی وجہ سے شریف برادران یہ رسک مول نہیں لے رہے۔ مگر لندن میں ایسی بھی کیا کشش ہے کہ 2 دن کی بجائے 7 روز وہاں دل لگایا جائے۔ اس لیے اب وزیر اعظم کو واپس جلد آ کر وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھنا چاہیے ورنہ کہتے ہیں خالی گھر میں جن بھوت قابض ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
زمان پارک کی سکیورٹی کے لیے لاہور کو لاوارث چھوڑ دیا گیا
جی ہاں یہ کوئی شاعرانہ تعلی نہیں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا گواہ ہے۔ شہر میں ہر طرف ڈاکوئوں اور چوروں نے قیامت مچا رکھی ہے۔ یوں لگتا ہے کراچی کے سٹریٹ کرائمز کی ہوا لاہور کو لگ گئی ہے۔ اب یہاں بھی کوئی گلی کوئی سڑک محفوظ نہیں۔ دن ہو رات یہ جرائم پیشہ افراد لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ شہری سڑکوں پر گھروں میں دکانوں میں لٹ رہے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ کی ساری توجہ زمان پارک کو محفوظ و مامون بنانے میں ہے۔ جہاں پنجاب حکومت کا لاڈلہ اطمینان سے بیٹھ کر لانگ مارچ چلا رہا ہے۔ بے شک اہم سیاستدانوں کی حفاظت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ عوام کی حفاظت بھی حکومت پنجاب اور مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے یا نہیں۔ کیا کسی سیاستدان اور عام آدمی کی زندگی کی قدر و قیمت یکساں نہیں۔ قتل سیاستدان کا ہو یا عام آدمی کا قانون کی نظر میں برابر ہے۔ مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ زمان پارک کے اردگرد پورے لاہور اور خیبر پی کے کی پولیس اور کمانڈوز و نجی سکیورٹی گارڈ جمع ہیں۔ سیمنٹ کے بلاکس اور ریت کی دیواریں قائم ہیں جبکہ شہر میں سڑکوں، گلیوں ، مارکیٹوں ، محلوں سے پولیس غائب ہے۔ لگتا ہے لاہور کا مطلب زمان پارک ہے۔ ایسا کرنا مناسب نہیں لاہور میں جرائم کی رفتار دیکھ کر انتظامیہ ازخود فیصلہ کرے کہ ڈیڑھ کروڑ کی زندگیاں محفوظ بنانی ہیں یا ایک شخص کی۔ وہ بھی ایسا سیاستدان جو بنی گالہ کے اپنے محفوظ محل میں بھی محفوظ رہ سکتا ہے۔ مگر شہری کہاں جائیں ان کے لیے کوئی بنی گالہ یا جاتی امرا نہیں ہے انہیں اسی شہر میں انہی گلیوں میں رہنا ہے۔ وہ پورے ٹیکس بھی دیتے ہیں قانون کی پابندی بھی کرتے ہیں تو ان کے لیے بھی زمان پارک جیسے حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کئے جاتے۔
٭٭٭٭٭
بھارت روس سے جتنا چاہے تیل خرید سکتا ہے۔ امریکہ
کاش کبھی ایسی ہی محبت کا اظہار امریکہ نے ہمارے لیے بھی کیا ہوتا۔ ہمیں بھی اس طرح کوئی رعایت دی ہوتی۔ ہمیں بھی خوشی ہوتی کہ امریکہ ہمارا دوست ہے۔ ہمارا خیال رکھتا ہے۔ چلو روس سے نہ سہی اس سے امریکہ کو نفرت ہے کسی اور ملک مثلاً ایران کے حوالے سے کہہ دیتا کہ چل یار وہ تیسرا ہمسایہ ہے اس سے ہی تیل اور گیس سستے داموں ملتی ہے تو لے لے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا نہ امکان نظر آتا ہے کہ امریکہ ہمیں ایسی کوئی اچھی آفر کرے۔ اگر امریکہ چاہے تو اپنے وسائل سے بھی ہمیں گیس اور تیل دے کر ہماری ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ آخر اس کے اپنے گیس اور تیل کے محفوظ ذخائر کیا سوکھنے کے لیے ہیں۔ آخر وہ کس دن کام آئیں گے۔ دوست کی اور وہ بھی فرنٹ لائن اتحادی دوست کو چھوڑ کر نصف صدی امریکہ کی مخالفت میں بسر کرنے والے بھارت سے اتنی محبت سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس پر تو پاکستانی حکام
ہم باوفا تھے اس لیے نظروں سے گر گئے
شاید انہیں تلاش کسی بے وفا کی تھی
کہنے میں حق بجانب ہیں۔ کس منہ سے امریکہ کہہ رہا ہے کہ بھارت جتنا چاہے تیل روس سے خرید لے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ کیا یہ سارے اعتراضات صرف پاکستان کے لیے ہیں جو نصف صدی سے زیادہ ہو چکے وفاداری بشرط استواری کے تحت امریکی نام نہاد دوستی میں بسر کر کے بھی امریکی محبت و دوستی کا حقدار نہیں بن سکا اور امریکہ اپنی نئی ڈارلنگ بھارت پر اپنی محبتیں نچھاور کرتا پھر رہا ہے۔ پھر بھی ہم سے دوستی نبھانے کے تقاضے بھی کرتا ہے ’’ہے ناں عجیب بات‘‘
٭٭٭٭٭
سوات میں بدھا کے مجسمے پر پتھر مارنے والا گرفتار
اب بھلا اس عقل کے اندھے سے کوئی پوچھے کہ بھائی اس بے جان مورتی نے تیرا کیا بگاڑا ہے۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے جہاں ماسوائے اقلیتی برادری کے کوئی بھی مورتی کی پوجا نہیں کرتا۔تو پھر بدھ مت اس تاریخی ورثہ پر پتھرائو کر کے وہ کونسا ثواب کما رہا ہے۔ ہمارا مذہب، آئین اور قانون غیر مسلموں کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے مذہبی رسومات سرانجام دینے کی اجازت دیتا ہے۔ اس پر عمل کرنا ایک اچھے پاکستانی کے طور پر ہم سب پر قرض ہے۔ سوات، پشاور، ٹیکسلا ، ہری پور، حسن ابدال ، وادی نیلم، شاردہ، کشمیر یہ سب علاقے قبل از اسلام بدھ مت کے مراکز تھے۔ یہاں سے بدھ مبلغ چین، سری لنکا ، ویت نام، بنکاک ، تھائی لینڈ ، جاپان تک جاتے تھے۔ یہاں بدھ کی تاریخی مذہبی عمارات مجسمے، عمارتیں اور سٹوپے بنائے گئے جو آج بھی موجود ہیں اور یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی وجہ سے پاکستان کی پہچان ہے۔ افغانستان میں دیکھ لیں کم عقل جذباتی افراد نے بامیان میں عظیم الشان بدھا کے مجسمے مسمار کر کے چین، جاپان و دیگر بدھ مت کے ماننے والے ممالک کو خوامخواہ اپنا مخالف بنا دیا۔ انہوں نے تباہ حال افغانستان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اب ہمارے ہاں بھی بعض جذباتی شدت پسند ایسا کر کے ملک کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔ سیاحتی لحاظ سے یہ اہم علاقے ہیں۔ دنیا بھر سے سیاح یہاں آ تے ہیں۔ بہتر تو ہے کہ ان تاریخی مقامات کو محفوظ تر بنا کر ہم سیاحوں کو متوجہ کریں تاکہ سیاحت کی انڈسٹری کو فروغ ملے ویسے بھی آج کل مذہبی مقامات کی سیاحت سے دنیا کے کئی ممالک کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ سوات تو ویسے ہی قدرتی حسن اور تاریخی نوادرات کی وجہ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔