دورِحاضر میں مسلم امہ کی حالت ِ زار
مکرمی! موجودہ دور میں مسلم امہ زوال پذیر ہے کرہ¿ ارض پہ ڈیڑھ ارب سے زائد نفوس پہ مشتمل اور دردر کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے۔ تیل اور دیگر معدنی وسائل سے مالا مال اسلامی ممالک اپنے عیاشیوں اور فضول خرچیوں کی بدولت قرضوں کی دلدل میں بُری طرح پھنس چکے ہیں وہ ممالک جن کی معیشت یورپی بنکوں میں پڑی دولت پہ ملنے والے سود پہ چلتی تھی اب گھٹنوں کے بل بیٹھے یورپ کی طرف سے امداد اور قرضوں کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ قرآنی تعلیمات اور سنتِ رسول یہ عملدرآمد میں اعراض کر کے پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستے جا رہے ہیں۔ استعماری قوتیں انہیں اپنے مذکوم مقاصد کے لیے انگلیوں پہ نچا رہی ہیں اور یہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی خودی کو بالائے تاک رکھ کر ان کے پیچھے پیچھے ”یس سر“ کی گردان لگائے چلے جا رہے ہیں مسلم امہ میں اتفاق اور اتحاد نام ک کوئی چیز نہیں ہے ان کی اپنی بنائی تنظیموں میں بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں اگر کہیں یہود و ہنود اور نصاریٰ کی طرف سے مسلم امہ پر ظلم و ناانصافی کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں تو یہ کوئی عملی اقدامات اٹھانے کی بجائے صرف مذمت پر اکتفا کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ اب اس امہ میں نہ تو کوئی محمد بن قاسم ہے نہ طارق بن زیاد اور نہ ٹیپو سلطان، مسلم اُمہ برصغیر اور میر صادق جیسے ضمیر فروشوں اور غداروں سے بھری پڑی ہے خدا اور اس کے رسول سے ناطہ توڑ کر خواہشات نفس کی تکمیل میں تبانِ آزاری سے اپنے دلوں کو معمور کر رہی ہے اقتدار کی اندھی ہوس ، مذہبی جنونیت پسندی اور فرقہ واریت میں حقیقی اسلام سے برگشتہ کر رہی ہے مذہبی پیشوا مصلحتوں کا شکار ہو کر وہ درس اُمہ کو کو نہیں دے رہے جس کی ہدایت مرشد نے دی ہے اسی لئے دور نبوی کا اسلام کسی اسلامی ملک میں نظر نہیں آتا تارک قرآن کا لیبل ہم نے اپنے نفس پر لگا رکھا ہے اسی لئے دنیا میں خوار ہو رہے ہیں اپنی تمام تر توانائیاں نفسیاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں ہم تو نام کے مسلمان اسلامی غیرت و حمیت سے عاری ہوہو چکے ہیں خواجہ¿ یثرب کی حرمت پر مر مٹے بغیر ہی اپنے ایمان کو کامل سمجھنے لگے ہیں اپنے نفس کے پالے ہوئے لات و منات کو پوج پوج کر اپنے حقیقی رب سے بھی آخرت کی بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں اپنے من کی آبیاری کے لیے حقیقی زندگی کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کرتے یہی میرے نفس کا مطمہ¿ نظر ہے اگر مسلم اُمہ اپنے رویوں میں تبدیلی نہ لائی اللہ اور اس کے رسول کو احکام کو اپنی عملی زندگی کا محور و منبع نہ بنایا، اخوت رواداری صبر، برداشت اور بھائی چارے کے جذبوں کو عام نہ کیا تو مسلم اُمہ کے لیے تباہی و بربادی ذلت و خواری، شرمندگی اور رسوائی کی اس دلدل سے نکلنا محال ہو گا۔ (رانا ارشد علی ، گجرات)